وہی برقِ تجلی کار فرما اب بھی ہے لیکن
نگاہوں کو میسر ہی نہیں بے ہوش ہو جانا
دارالحکومت دہلی میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ سیاسی جماعتوں بہت زیادہ سرگرم ہوچکی ہیں۔ ویسے تو تقریبا تمام جماعتیں بہت پہلے ہی سے ان انتخابات کی تیاریاںشروع کر چکی تھیں تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا شیڈول جاری کئے جانے کے بعد یہ سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں اور آئندہ وقتوں میں ان میں اور بھی تیزی آئے گی ۔ سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملی تیارکرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گی ۔ بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات کیلئے خاص طور پر زیادہ سرگرم دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے بہت پہلے سے مہم شروع کردی تھی ۔ دہلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنانے میںبھی اس نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ انتخابات کا بگل بج جانے کے بعد بھی دونوں جماعتوں میں الزامات و جوابی الزامات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ انتخابی عمل کو ان دونوں ہی تک مرکوز رکھا جائے اور یہ تاثر عام کردیا جائے کہ دہلی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اس کا قطعی فیصلہ تو دہلی کے عوام کرینگے کہ انہیں کس کی حکومت دیکھنی ہے تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو اس نے دہلی کیلئے اپنے منصوبے تیار رکھے ہیںاور انتہائی منفی حکمت عملی پر عمل آوری کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔سابق رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کو دہلی میں خصوصی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ بدھوڑی کو لوک سبھا انتخابات میںٹکٹ نہیں دیا گیا تھا تو یہ کہا جا رہا تھا کہ چونکہ انہوں نے لوک سبھا میں ساتھی رکن کنور دانش علی کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی تھی ۔ تاہم اب جبکہ دہلی میں انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے تو یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ رمیش بدھوڑی کا لوک سبھا میں دیا گیا بیان بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کیونکہ بی جے پی چاہتی ہے کہ انتخابات کو منافرت کی فضاء میں لڑا جائے اور نفرت کے ذریعہ کامیابی حاصل کی جائے ۔ بھدوڑی کو بی جے پی نے دہلی میںوزارت اعلی کا امیدوار بناتے ہوئے اپنے عزائم واضح کردئے ہیں اور رائے دہندوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ نفرت کی اور منفی سیاست سے باز نہیں آئے گی ۔
دہلی کا جہاں تک سوال ہے تو بی جے پی کسی بھی قیمت پر وہاں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل بھی دہلی کا ماحول بگاڑا گیا تھا ۔ فسادات برپا ہوئے تھے اور بی جے پی کے کئی قائدین نے انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے عوام میں پھوٹ ڈالنے اور نفرت کو ہوا دینے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ تاہم گذشتہ انتخابات میں بھی دہلی کے عوام نے بی جے پی کے منصوبوںکو کامیاب ہونے نہیںدیا تھا ۔ اس بار بی جے پیکافی وقت سے در پردہ کوششیں کر رہی ہے ۔ کئی طرح کے منصوبوںپر عمل کیا جا رہا ہے اور ان میں رمیش بدھوڑی کو چیف منسٹر کا چہرہ بناکر پیش کرنا بھی شامل ہے ۔ رمیش بدھوڑی نے لوک سبھا کے رکن رہتے ہوئے ایوان کے تقدس اور وقار کو پامال کیا تھا اور ساتھی رکن کے خلاف اس طرح کے ریمارکس کئے تھے جو انتہائی اوچھے قسم کے تھے ۔ انہوں نے جو زبان اور لب و لہجہ استعمال کیا تھا وہ انتہائی قابل مذمت تھا ۔ رمیش بدھوڑی کی سرزنش کرنے کی بجائے انہیںمستقبل کے چیف منسٹر کے طور پر منتخب کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے حالانکہ یہ طئے نہیں ہے کہ واقعی بی جے پی کو کامیابی ملے گی ۔ بی جے پی اپنی جانب سے کوئی کسر باقی رکھنا نہیںچاہتی اور نہ وہ اپنی فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے اور اشتعال انگیز تقاریر کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی چاہتی ہے ۔ اسی منصوبے اور حکمت عملی کے تحت رمیش بدھوڑی کو چیف منسٹر کے چہرے کے طور پر پیش کیا گیا جو بی جے پی کی انتہائی منفی سیاست کی مثال ہے اور رائے دہندوں کیلئے ایک پیام بھی ہے کہ بی جے پی کیا کچھ چاہتی ہے اور اس کے عزائم اور منصوبے کیا ہیں۔
انتخابات مثبت مسائل پر لڑے جانے چاہئیں۔ ترقیاتی مسائل کو پیش کیا جانا چاہئے ۔ دہلی اور وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی ایسا کسی بھی ریاست میں نہیں کرتی اور وہ صرف اپنے ایجنڈہ کے مطابق انتخاب لڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہے ۔ بی جے پی نے دہلی میں جو منفی حکمت عملی اختیار کی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ دہلی کے باشندے اس کو مستردکردیں اور ترقیاتی مسائل پر اور مثبت سیاست کرنے والوں کو موقع دیں۔ منفی سیاست کرنے والوںکو سبق سکھانا ملک اور خاص طور پر دہلی کے رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے ۔
این سی پی کے اتحاد کی کوششیں
میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ مہاراشٹرا میں این سی پی کے دونوں گروپس شرد پوار اور اجیت پوار میں ایک بار پھر اتحاد ہونے والا ہے اور اس کیلئے کوششیںتیز ہوگئی ہیں۔ این سی پی میں جو پھوٹ ہوئی تھی وہ ایک خاندان کی پھوٹ تھی جو بعد میں پارٹی کی پھوٹ ہوگئی اور اجیت پوار نے سینئر پوار کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرلیا اور انہوں نے خاندان پر سیاست کو ترجیح دی تھی ۔ اب ایک بار پھر جب ان گروپس میںاتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں تو شرد پوار کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظریات کو اہمیت دیں۔ سیاسی نقصان اور فائدہ وقتی ہوتا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں شرد پوار کا غلبہ رہا اورا سمبلی انتخابات میں اجیت پوار نے بازی مارلی ۔ یہ وقتی نفع و نقصان ہے تاہم نظریات اور عوام میں امیج زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور خاص طور پر شرد پوار جیسے سینئر سیاستدان کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ خاندان اور سیاست میں توازن برقرار رکھتے ہوئے نظریات کی سیاست کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور فرقہ پرستوں کو مستحکم کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔