راج دیپ سردیسائی
یہ دَور جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے والوں کا ہے، جس میں سوشل میڈیا غیرذمہ دارانہ باتوں کو بڑھا چڑھا کر دور دور تک پھیلانے کا کام کررہا ہے۔ دہلی میں کپل مشرا جیسے حاشیہ پر کردیئے گئے لیڈر نے اشتعال انگیز بیان بازی کے ذریعے خبروں میں رہنے کا گُر سیکھ لیا ہے۔ مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی (عآپ) حکومت میں منسٹر تھا اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) سے وابستہ ہے، اُس پر وہ شعلے بھڑکانے کا الزام ہے جن کی لپیٹ میں قومی دارالحکومت کا ایک حصہ آچکا ہے۔ مشرا نے شہریت (ترمیمی) قانون یا سی اے اے کی مخالفت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کو اپنے ایجی ٹیشن سے دستبردار ہوجانے یا پھر نتائج و عواقب بھگتنے کی دھمکی دی۔ یہی لیڈر نے دہلی کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کو ’’انڈیا بمقابلہ پاکستان‘‘ قرار دیا تھا، جو شدید نوعیت کا فرقہ پرستانہ ریمارک ہے جس کا مقصد ووٹوں کے حصول کی دھن میں نفرت پھیلانا رہا۔ تب اس کی الیکشن کمیشن نے بمشکل سرزنش کی، لیکن اب دہلی تشدد میں اُس کے شرپسندانہ رول کی تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے۔
فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے والوں میں مشرا تنہا نہیں۔ گزشتہ دنوں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے ممبئی کے مقامی لیڈر وارث پٹھان نے اینٹی سی اے اے احتجاجوں کے پس منظر میں انتباہ دیا تھا کہ’’ہمارے 15 کروڑ‘‘ کس طرح ’’اُن کے 100 کروڑ‘‘ پر بھاری پڑسکتے ہیں۔ ایسے آگ لگانے والے ریمارکس نے سماج میں فرقہ وارانہ تعلقات کو نازک موڑ پر لانے کا کام کیا ہے۔ آگے چل کر غبار پھٹ پڑا جس نے دہلی فسادات میں درجنوں جانیں لئے اور زائد از 100 افراد زخمی کئے ہیں۔
ایک بات واضح کرلیجئے: کئی ماہ سے نفرت انگیز، جذبات بھڑکانے والی لفاظی کے بعد یہ فساد کا اندیشہ بڑھ گیا تھا کیونکہ دونوں طرف برادریوں میں خوف، ناراضگی اور غصہ کے احساسات پیدا ہورہے تھے۔ جب شاہین باغ کے احتجاجیوں کو ’’دیش کے غدار‘‘ قرار دیا جائے جن کو حکومتی وزراء اور اُن کے حامی ’’گولی مار دینے کے مستحق‘‘ بتائیں، اور جب سیاسی قیادت کی جانب سے ہندوستانی مسلمان کو شیطان کے طور پر پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش ہونے لگے تو یوں سمجھئے کہ ممکنہ جھگڑے کے بیج بوئے جاچکے ہیں۔
جب بعض میڈیا کی مدد کے ساتھ پروپگنڈہ مشین کو لگاتار چلاتے ہوئے اکثریتی برادری کے بدترین تعصب کو ہوا دی جائے، تب سماج میں شدید مذہبی دراڑ کا پیدا ہونا لگ بھگ یقینی ہے۔ یہ بات کہ حکومت نے گڑبڑ کے اندیشے کا اندازہ نہیں کیا، مزید حیران کن ہے۔ سرکاری مشینری سوئی رہی، دانستہ ہو یا اس کے برعکس۔ نامی گرامی امریکی صدارتی دورہ کے دوران یہ سب کچھ پیش آنا مزید پریشان کن ہے۔ یقینا، نریندر مودی حکومت نے نہیں چاہا ہوگا کہ روایتی موقع کی دھوم دھام سڑکوں پر مذہبی تشدد کی مایوسی کی نذر ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد پر قابو پانے میں سرکاری مشینری ناکام ہونے کے رول کی تحقیقات درکار ہے۔ نظم و نسق کے قواعد کا قدیم قاعدہ ہے کہ کسی بھی فساد کو انتظامی ناقابلیت یا سازباز یا دونوں کے کچھ نہ کچھ رول کے بغیر 48 گھنٹے تک برقرار رہنے نہ دیا جائے۔
پہلے روز، دہلی پولیس سڑکوں پر تشدد میں شدت سے نمٹنے کیلئے نہ تعداد کے اعتبار سے معقول تھی اور نا اچھی طرح تیار تھی۔ دوسرے روز، معقول ویڈیو اور واقعاتی ثبوت سے ظاہر ہوا کہ پولیس سخت اور غیرجانبدارانہ انداز میں کام کرنے کے بجائے شرم کی بات ہے کہ فسادیوں کے ایک گروپ کا ساتھ دیتی رہی۔ پولیس فورس کا اس طرح ’’فرقہ پرست بن جانا‘‘ کچھ نیا نہیں ہے۔ لگ بھگ ہر بڑے فساد میں پولیس کا رول مشکوک رہا ہے۔ وہ خوف یا جانبداری کے بغیر قانون کی حکمرانی کو لاگو کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصے میں پولیس نے پوری طرح برسراقتدار طبقہ کی حامی بن کر کام کیا ہے۔ تبادلوں اور تقررات کا سارا سسٹم سیاسی طبقہ کی مرضی و خواہش کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ اسی لئے پولیس ہیڈکوارٹرز اور وزارت داخلہ میں نظم و نسق کی قیادت دونوں کو بعض سخت سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے میں کون ناکام ہوا کہ تشدد کے پہلے روز میدان پر پولیس فورسیس کی معقول تعداد تعینات رہے؟ اور کس نے پولیس کو چھوٹ دی کہ فساد کے دوسرے روز یکطرفہ کارروائیاں کرے اور کوئی گرفت نہ ہوگی؟
ناقابلیت اور سازباز کے اس خطرناک امتزاج کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ شمال مشرقی دہلی میں مسلم گروپوں کے زیراہتمام بعض اینٹی سی اے اے احتجاجوں نے تشدد کی شکل اختیار کی، اس بات کو معقول وجہ کے طور پر پیش کیا گیا کہ مقامی ہندو گروپوں کو بلاخوف و خطر جوابی کارروائی کی چھوٹ دے دی جائے۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ داغ دار اور منتشر پڑوسی علاقوں میں عام ہندو اور مسلمان دونوں کو جان و مال کا نقصان ہوا ہے۔
اصل تشویش یہ ہے کہ نارتھ ۔ ایسٹ دہلی شاید محض ’ٹریلر‘ ہے، اور اسی طرح کے پُرتشدد بھڑکاؤ دیگر مقامات پر پھیلنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ ایسا نظر نہیں آتا کہ مرکز کی برسراقتدار پارٹی نے اپنے سبق سیکھ لئے ہیں یا وہ بڑھتی مذہبی خلیج کو پاٹنے میں سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کپل مشرا جیسے لیڈروں کو برطرف کردیتی، نہ کہ اُن کی زہریلی باتوں کو واجبی بتانے کی کوشش کرتی۔ اگر اُس نے ایسا کیا تو شاہین باغ کے احتجاجیوں کو جلاوطن کرنے کے بجائے اُن کے ساتھ بات چیت شروع ہوگی۔ اور اگر ایسا ہوا تو اسے پتہ چل جائے گا کہ مخالف مسلم نفرت پر مبنی سیاست بھلے ہی ہندوتوا ووٹ بینک کو مضبوط کرے گی لیکن اس کے نتیجے میں سماج اس حد تک منتشر ہوجائے گا کہ واپسی کا راستہ نہ ہوگا۔
اختتامی تبصرہ
نارتھ ایسٹ دہلی سے رپورٹنگ کے دوران میری ملاقات کمل شرما سے ہوئی، جس کی رسٹورنٹ خاکستر کردی گئی اور میں محمد نواز سے بھی ملا جس کی فروٹ شاپ اور جس کا گھر زمین دوز کردیئے گئے ہیں۔ یہ دونوں بڑی روڈ کی مخالف سمتوں میں رہتے ہیں۔ اگر ہم اُن کی زندگیوں کو سنبھال نہ سکیں تو سمجھئے کہ ہم نے ایک اور غیرسرکاری ’’بارڈر‘‘ پیدا کردیا ہے، اور اِس مرتبہ قومی دارالحکومت کے قلب میں بٹوارہ ہوا ہے۔
[email protected]