دہلی کی عدالت میں فائرنگ

   

Ferty9 Clinic

قومی دارالحکومت دہلی میں اب عدالتوں میں بھی فائرنگ اور قتل ہونے لگے ہیں۔ دہلی کی ایک عدالت میں ایک گینگسٹر کو اس کے مخالفین نے وکلاء کے بھیس میں داخل ہوکر بے دریغ فائرنگ کرتے ہوئے ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ انتہائی سنگین کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ایک تو یہ کہ یہ کمرہ عدالت تھا اور دوسرے یہ انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں کی سکیوریٹی دوسرے علاقوں سے زیادہ ہونی چاہئے۔ دارالحکومت دہلی میں ویسے بھی جرائم کے واقعات میں کافی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔ قتل و غارت گری اور عصمت ریزی کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ شمالی دہلی کے روہینی علاقہ میں واقع عدالت میں اس طرح فائرنگ کا واقعہ کوئی معمولی بات نہیں کہی جاسکتی۔ کمرہ عدالت میں مخالف کو وکیل کے بھیس میں داخل ہوکر دن دھاڑے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے اور پولیس اور وہاں موجود لوگ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ اس واقعہ میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ دارالحکومت دہلی میں لاء اینڈ آرڈر کی برقراری مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور پولیس مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ امیت شاہ مسلسل پولیس کی ستائش کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور ان کا دعویٰ رہتا ہے کہ پولیس نے جرائم پر قابو پانے کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور صورتحال کو بہتر کردیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں عام انسان بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی وارداتوں میں اضافہ تو ہوتا ہی جارہا ہے اور اب دہلی میں عدالتیں بھی محفوظ نہیں رہ گئی ہیں۔ حالانکہ جس گینگسٹر جیتندر گوگی کو گولی ماری گئی ہے وہ بھی مجرم تھا اور کئی جرائم میں ملوث تھا۔ تاہم اس کے مقدمات کی عدالت میں سماعت چل رہی تھی اور اسے جو کچھ بھی سزا دی جانی چاہئے تھی وہ عدالت کی جانب سے دی جانی چاہئے تھی۔ مخالف گینگ کے افراد نے اسے راستہ سے ہٹانے عدالت میں اس کا قتل کردیا۔ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اس واقعہ سے دارالحکومت دہلی میں سکیوریٹی کی صورتحال انتہائی ابتر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
دہلی پولیس کا جہاں تک سوال ہے وہ بے قصور اور بے گناہ افراد کو مختلف مقدمات میں پھانسنے میں پیچھے نہیں رہتی۔ کئی نوجوانوں کو معمولی جرائم پر بھی گرفتار کرتے ہوئے سنگین مقدمات درج کرتی ہے اور انھیں جیلوں کو منتقل کردیا جاتا ہے۔ انھیں ایسے دفعات کے تحت جیل بھیجا جاتا ہے جن میں کئی مہینے بلکہ سال بھر بھی ضمانت نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف عام عوام کو سکیورٹی اور تحفظ فراہم کرنے میں دہلی پولیس ناکام ہوتی جارہی ہے۔ سرعام دہلی پولیس کی موجودگی میں فرقہ پرست عناصر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی ہے۔ اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔ انھیں نشانہ بنانے کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اب تو عوام کی سکیوریٹی اور سلامتی کے سلسلہ میں بھی دہلی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ دہلی ایک انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے اور یہ ملک کا دارالحکومت ہے۔ یہاں بیرونی سفارتکار موجود ہوتے ہیں۔ ملک کے تمام اہم قائدین صدرجمہوریہ ہند، نائب صدرجمہوریہ، وزیراعظم، تمام کابینی وزراء اور سپریم کورٹ کے ججس، بیرونی ممالک کے سفیر وغیرہ سب یہاں موجود ہوتے ہیں۔ سفارتخانے موجود ہیں اور یہاں انتہائی سخت ترین اور مؤثر سکیورٹی ہونی چاہئے لیکن ایسا ہوا نہیں ہے اور دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے کے باوجود بھی وہاں سکیوریٹی صورتحال کو بہتر اور اطمینان بخش بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
دہلی پولیس کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ اپنے طرز کارکردگی پر نظرثانی کرے۔ مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزارت داخلہ کو چاہئے کہ دہلی پولیس کو جرائم کے معاملے میں جوابدہ بنائے۔ دہلی پولیس کو اپنے سیاسی ایجنڈہ کے لئے استعمال کرنے کے بجائے انھیں پیشہ وارانہ مہارت اور دیانت کے ساتھ کام کرنے کا پابند بنانا چاہئے۔ جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری دیتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا جانا چاہئے۔ بازپرس کی جانی چاہئے۔ دارالحکومت دہلی ہی میں اگر لاء اینڈ آرڈر اور سکیوریٹی کی صورتحال اطمینان بخش نہ ہو تو اس سے سارے ملک میں منفی پیام جائے گا۔ اس کا نوٹ لیتے ہوئے وزارت داخلہ کو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنا چاہئے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔