عدالت نے مشاہدہ کیاکہ اس طرح کی تصحیح کی اجازت دینے سے افرتفری پھیلے گی اور سی بی ایس سی کو ہر معاملے میں آزادنہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی۔
نئی دہلی۔ہائی کورٹ دہلی نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک جب کوئی اسکول سی بی ایس سی کی ویب سائیڈ پر کسی طالب علم کے داخلی تشخیص کے نشانات اپلوڈ کرتا ہے تو وہ بعد میں چاہئے اپلوڈ کے عمل میں کوئی غلطی ہی کیوں نہ سرزد ہوئی ہو اصلاح کی درخواست نہیں کرسکتاہے۔
جسٹس سی ہر ی شنکر نے کہاکہ اس طرح کی تصحیح کی اجازت دینے سے افرتفری پھیلے گی اور سی بی ایس سی کو ہر معاملے میں آزادنہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی۔
عدالت نے اس مشاہدہ کا اظہار اس وقت کیا جب 2019-2020تعلیمی سال میں دسویں جماعت کے سماجی علوم کے مضمون میں اپنی بیٹی کے داخلی تشخیص کے نشانات کی درستگی میں سی بی ایس سی سے ہدایت کی مانگ پر مشتمل ایک والد کی درخواست کو خارج کیاہے۔
عدالت نے کہاکہ ”سی بی ایس سی بھی اس طرح کی درخواستوں کو آنکھ بند کرکے قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا‘اور اگراس عمل کی اجازت دی جائے تو اس طرح کے ہر معاملے میں آزادنہ تصدیق کرنا پڑے گی تاکہ معلوم کیاجاسکے کہ امیدوار کون سے اصل نشانات دئے گئے تھے“۔
اسکول نے اپلوڈ میں نشانات میں غلطی کی نشاندہی کی تھی مگر سی بی ایس سی نے جانکاری دی کہ تصحیح نہیں کی جاسکتی ہے‘ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ سرکولرس کا اس ضمن میں حوالہ بھی دیا۔
عدالت نے طالب علم سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن کہا کے سرکولرس کو چیالنج نہیں کیاگیا اور بورڈ کا فیصلہ اس کے مطابق ہے‘ درخواست میں شکایت کوئی پائیدار نہیں ہے۔ تحریری درخواست بغیر کسی خرچ کے خارج کردی گئی۔
درخواست کومسترد کرتے ہوئے جسٹس شنکر نے کہاکہ سی بی ایس سی سرکولر میں فراہم کردہ نمبرات پر نظر ثانی کی تجویز”عام طور پر عوامی مفاد میں“۔عدالت نے کہاکہ ”یہ معاملہ ان بدقسمت معاملات میں سے ہے جس میں دماغ سے نہیں بلکہ دل سے فیصلہ سنایاچاہئے۔
اس لئے یہ عدالت ایک بار پھر ملونی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے‘ لیکن اس کی مدد میں ناکامی پر افسوس ہے۔ اخرجات کے حوالے سے بغیر کسی حکم کے اس کو خار ج کردیاجاتا ہے“۔