دینی مدارس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

   

ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے آج ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے دینی مدارس کو راحت فراہم کی ہے اور اس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے اور دینی مدارس کو رسواء اور بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے مفادات حاصلہ کو اپنی سازشوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اترپردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کو برقرار رکھا ہے اور اس کو کالعدم قرار دینے والے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو ہی کالعدم قرار دیدیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ریاستی حکومت چاہے تو معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرسکتی ہے ۔ ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں دینی مدارس ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہاں سے لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ بدلتے وقت اور تقاضوں کے مطابق عصری تعلیم کو روشناس کروانے کیلئے حکومتوں کی جانب سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں اور یہ بھی مدارس کے ذمہ داران کے ساتھ مشاورت کے ساتھ طئے کیا جاسکتا ہے تاہم اس قانون کو ہی برخواست کردینے بی جے پی کی کوششیں اب ناکام ہوگئی ہیں۔ عدالتی فیصلے سے ملک بھر کے دینی مدارس کو راحت نصیب ہوئی ہے اور ان مدرسوں میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبا و طالبات کا مستقبل بھی محفوظ ہوا ہے ۔ جس وقت سے مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر اترپردیش و آسام میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ہی دینی مدارس پر بری نظر رکھی جا رہی تھی اور ان کو بدنام اور رسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ یہ سب کچھ مسلم دشمنی میں کیا جا رہا تھا اور اس حقیقت سے منہ موڑا جا رہا تھا کہ ملک کی جدوجہد آزادی میں بھی ان مدارس نے سرگرم اور اہم رول ادا کیا ہے ۔ ان ہی دینی مدارس کے طلباء و طالبات کے علاوہ ان مدارس کے ذمہ داران اورعلماء کرام نے جدوجہد آزادی میں مثالی رول ادا کیا ہے اور عظیم قربانیاں پیش کرتے ہوئے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلائی ہے ۔ کئی دہوں سے علماء اور دینی مدارس کی اس بے مثال خدمت کا اعتراف بھی کیا جاتا رہا تھا جو کچھ گوشوں کو ہضم نہیں ہو رہا تھا ۔
دینی مدارس سے جہاں کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے وہیں انہیں اخلاق و ڈسیپلن سکھایا جاتا ہے ۔ قانون کی پابندی کا درس دیا جاتا ہے اور انہیں ایک اچھے اور ذمہ دار شہری بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ان ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب و نادار طلبا نے بڑے ہو کر اپنے اپنے شعبہ جات میں ملک کی خدمت بھی انجام دی ہے ۔ کئی طلباء ان ہی دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی عہدوں پر بھی فائز ہوئے اور انہوں نے ملک کی خدمت انجام دی ۔ ان تمام حقائق کے باوجود بی جے پی کی نظر میں یہ مدرسے کھٹک رہے تھے اور وہ چاہتی تھی کہ ان مدارس کو نشانہ بنایا جائے اور انہیں ختم کروایا جائے ۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعہ اس کوشش کو ناکام بنادیا ہے اور اب یہ مدارس اپنی خدمات جاری رکھ سکتے ہیں۔ مدارس کو اور یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو اس فیصلے کے ذریعہ بڑی راحت نصیب ہوئی ہے ۔ جہاں تک اترپردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کا سوال ہے تو یہ قانون ایک حکومت نے ہی بنایا تھا اور اسے غیر دستوری قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ حالانکہ ایک حکومت کا بنایا ہوا قانون غیر دستوری نہیں ہوسکتا کیونکہ اس پر اسمبلی اور کابینہ میں غور و خوض کیا جاتا ہے اورا س کے بعد ہی کوئی قانون بنایا جاتاہے ۔ دینی مدارس کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے بی جے پی نے ایک بار پھر سے مسلم اور اقلیت دشمنی کا ایک بار پھر سے ثبوت دیا ہے ۔
اترپردیش اور آسام جیسی ریاستوں میں خاص طور پر دینی مدارس کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مدارس کے خلاف رسواء کن اور بدنام کرنے کی مہم کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے ۔ ان مدارس کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے ۔ یہاں تعلیمی نظام کو مزید مستحکم اور موثر بنانے کی کوشش کی جائے ۔ عصری تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کیلئے ذمہ داران مدارس کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے تجاویز حاصل کی جائیں ۔ مدرسوں کے تعلق سے منفی سوچ کو بدلتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ کام کیا جائے اور ان کو فروغ دینے اقدامات کئے جائیں۔