پستی و بلندی کا فرق کیوں نہیں مٹتا
ایک حدِّ فاصل سی اپنے درمیاں کیوں ہے
گذشتہ پارلیمانی انتخابات کے بعد سے کانگریس پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ تقسیم کی سیاست پر عمل پیرا ہے ۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ کانگریس پارٹی ملک میںذات پات کے نام پر بھید بھاؤ پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ دراصل بی جے پی کو اس بات سے تکلیف ہے کہ کانگریس پارٹی پسماندہ طبقات کو ان کا حق دلانے کیلئے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کروانا چاہتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے میں صرف کانگریس سرگرم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی سے اتحاد رکھنے والی اور این ڈی اے میں شامل جماعتیں بھی سرگرم ہیں اور وہ بھی چاہتی ہیں کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہو ۔ نریندر مودی حکومت کے استحکام کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ کی بہار حکومت نے تو اپنی ریاست میں ذات پات کی بنیاد پر سروے کا کام بھی مکمل کرتے ہوئے رپورٹ بھی جاری کردی تھی ۔ اس کے علاوہ کانگریس کے اقتدار والی ریاستوں میں بھی ایسا کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کیلئے اسی منصوبے سے پریشانی لاحق ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے کانگریس کو ذات پات کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی کو اس طرح کے مسائل پر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی نے اس ملک میں دو سب سے بڑے طبقات اور فرقوں کے مابین نفرتوں کو ہوا دی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ملک میں ہر مسئلہ کو ہندو ۔ مسلم کا رنگ دیدیا گیا ہے ۔ اب عام لوگ بھی ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے تعلق سے اندیشوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ سماج میں ایک دوسرے کے تعلق سے دوریاں پیدا ہوگئی ہیں اور اس کی ذمہ داری بی جے پی پر عائد ہوتی ہے ۔ اس نے ہی ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں آج ملک کی ٹرینوں میںسفر کو کچھ لوگ محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں اور اندیشوں اور شبہات کا شکار ہورہے ہیں۔ اس سلسلہ میں پیش آئے کچھ واقعات سے بھی مثال لی جاسکتی ہے ۔
بی جے پی کے کئی قائدین ایسے ہیں جنہوں نے ماحول کو خراب کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اشتعال انگیز بیانات ان کی عادت بن گئے ہیں۔ انتخابات کے موسم میں تو خاص طور پر اس طرح کی بیان بازیوں میں شدت پیدا ہوجاتی ہے ۔ عوام کے جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے اور انہیں مشتعل کرتے ہوئے اپنے سیاسی فائدہ کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی کے تعلق سے ایک عام تاثر یہ بھی رہا ہے کہ وہ اعلی ذات والوں کی پارٹی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے کئی اہم عہدوں پر ان ہی طبقات کو مواقع دئے گئے ہیں اور پسماندہ طبقات کو بی جے پی کی جانب سے اب تک سیاسی فائدہ کیلئے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ جہاں تک انہیں حقوق دینے کی بات آتی ہے تو پھر اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور بہانے بازیاں کی جاتی ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری بی جے پی کیلئے گلے کا کانٹا بن گئی ہے ۔ بی جے پی کھل کر اس کی تائید نہیں کرسکتی اور اس کی کھل کر یا شدت سے مخالفت بی جے پی کیلئے سیاسی نقصان کا باعث ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں بی جے پی کوئی واضح موقف اختیار کرنے یا مرکزی سطح پر کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے کانگریس کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ بی جے پی نے ملک میں نفرت کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اور اب اس کی جانب سے دوسری جماعتوں کو تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جانا مضحکہ خیز ہے ۔ تاہم بی جے پی سیاسی فائدہ کیلئے ایسے بیانات جاری رکھے ہوئے ہے ۔
بی جے پی ہو یا کانگریس ہو یا علاقائی جماعتیں ہوں سبھی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ سماج میں دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنے کی بجائے ان کو دور کرنے اور ختم کرنے کیلئے کام کریں۔ سماج کے اہم طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لاتے ہوئے اتحاد و اتفاق کو یقینی بنائیں۔ سیاسی فائدہ وقتی ہوسکتا ہے تاہم اس کیلئے ملک کے سماجی تانے بانے کو متاثر ہونے کا موقع نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کوا یک دوسرے پر الزام عائد کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض الزام تراشی سیاسی فائدہ تو پہونچا سکتی ہے لیکن حقیقت کو بدل نہیں سکتی ۔