رائے دہی کے تین مراحل کی تکمیل

   

بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں
ان ہی محلوں میں پل کر بچے موسیٰ بن جاتے ہیں
ملک میںانتخابات کے تین مراحل میں رائے دہی کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ ایک طرح سے تقریبا نصف نشستوں کیلئے رائے دہی ہوچکی ہے اور یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ ہرگذرتے مرحلہ کے ساتھ بی جے پی کے امکانات کم ہونے لگے ہیں۔ ابتدائی دو مراحل میں بی جے پی کیلئے صورتحال واقعتا مشکل رہی تھی ۔ دو مراحل میں اپوزیشن کو جو سبقت کے اشارے ملے تھے اس کے بعد بی جے پی قیادت خود بھی یہ اندیشے محسوس کرنے لگی تھی کہ اس کو ملک کے عوام نے نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے ۔ اسی وجہ سے تیسرے مرحلہ کیلئے جب انتخابی مہم نے شدت اختیار کی تو بی جے پی نے اپنی مہم کا انداز ہی تبدیل کردیا اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔ بی جے پی کے امیدواروں سے لے کر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی تک نے ہندو ۔ مسلم کی سیاست شروع کردی تھی ۔ عوام میںایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ اکثریتی برادری کو اقلیتوں سے خوفزدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ پھر تحفظات کا مسئلہ چھیڑا گیا ۔ ہر طرح کے سیاسی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ حالانکہ کوئی بھی یہ دعوی سے نہیں کہہ سکتا کہ تین مراحل کی رائے دہی کے بعد کس کو سبقت حاصل ہو رہی ہے تاہم اپوزیشن کے حوصلے ضرور بلند دکھائی دینے لگے ہیں۔ اب جبکہ مزید چار مراحل میںر ائے دہی کا عمل باقی ہے تو ایسے میں رائے دہندوں کو مزید چوکنا رہنے اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں‘ ان کے قائدین اور امیدواروں کی مہم پر خاص طور پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ ان کی ذہنیت کو پرکھا جاسکے ۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ترقیاتی امور پر کون توجہ دے رہا ہے اور کون عوام میں تفریق پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ نفرت کو ہوا کون دے رہا ہے اور عوام کو جوڑنے کی بات کون کر رہا ہے اور کون دوریاں پیدا کر رہا ہے ۔ انتخابات میں مقابلہ مسائل کی بنیاد پر کون کر رہا ہے اور کون ایسے عناصر ہیں جو چاہتے ہیںکہ عوام کی توجہ بنیادی اور اہم مسائل سے ہٹ جائے اور تفرقہ پیدا ہوسکے ۔
جہاں تک اپوزیشن انڈیا اتحاد کی حکمت عملی کا سوال ہے تو اس نے ایک جامع اور منظم انداز اختیار کرتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل پر ہی اپنی ساری توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔ مسائل پر حکومت سے سوال کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو اس کے وعدے یاد دلائے جا رہے ہیں۔ اس کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کا جواب بھی مسائل پر ہی مبنی رہے ۔ تاہم بی جے پی اور اس کے قائدین نے تیسرے مرحلے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی وہ تفریق کی حکمت عملی تھی ۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر بی جے پی کے غلبہ والے حلقوں پر مشتمل رہا تھا ۔ ایسے میں تیسرے مرحلہ میں بی جے پی کیلئے بہت کچھ داؤ پر تھا ۔ ان حلقوں میں معمولی سا بھی نقصان بی جے پی کیلئے بہت بڑا ثابت ہوسکتا ہے اور اپوزیشن کی معمولی سی بھی سبقت اس کو اقتدار سے مزید قریب پہونچا سکتی ہے ۔ تقریبا نصف حلقوں کے بعد اب چار مراحل میں مزید نصف نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں۔ ایسے میں عوام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ملک اور ملک کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں رائے دہی میں حصہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا چاہئے اور اپنے ووٹ کے ذریعہ یہ رائے دینا چاہئے کہ وہ ملک کی ترقی کیلئے سنجیدگی سے منصوبے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہیں یا پھر ہندو ۔ مسلم کا کھیل کھیلتے ہوئے سماج میں تفریق پیدا کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔
مسائل پر توجہ دیتے ہوئے جس طرح سے اپوزیشن اتحاد نے اب تک کام کیا ہے اسے آئندہ مراحل کیلئے بھی مزید چوکسی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ابتدائی تین مراحل کے تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ خامیاں اگر دکھائی دیں تو آئندہ مراحل کیلئے انہیں دور کرنا چاہئے ۔ نفرت کی سیاست کو ترقی کے نعروں سے بے اثر کرنے کیلئے کمر کس لینی چاہئے ۔ شخصی اور ذاتی حملوں پر مایوس ہونے کی بجائے مزید عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے ۔ عوام میں حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے حقیقی منصوبوںکو پیش کرتے ہوئے ان میںشعور بیدار کرنا چاہئے کیونکہ با شعور عوام فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔