رام مندر کی سیاست

   

پھر صنم خانے ، نئے دور کے بُت گر بدلے
ایک پتھر کی جگہ دوسرے پتھر بدلے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے ۔ اب اس مندر کا افتتاح 22 جنوری کو ہونے والا ہے ۔ رام مندر کا مسئلہ ہندوستان کی سیاست کا سب سے اہم اور حساس نوعیت کا مسئلہ رہا ہے ۔ اس مسئلہ نے سارے ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل دیا ۔ عوامی مسائل اور سوشلسٹ نظریات سے فرقہ پرستی تک کو رام مندر کے مسئلہ نے ہندوستان کی سیاست کا اہم جز بنا دیا ہے ۔ بی جے پی نے اس مسئلہ سے جتنا فائدہ حاصل کیا ہے اتنا فائدہ کسی کے تصور میں نہیں رہا ہوگا ۔ سیاست میں ابتدائی فوائد سے لے کر مرکز میںاقتدار حاصل کرنے تک کا بی جے پی کا سفر کسی نہ کسی طرح سے رام مندر کی سیاست کے گرد ہی گھومتا رہا ہے ۔ بی جے پی نے جس طرح سے سارے ہندوستان میںرام مندر کی تحریک چلائی تھی اس نے بی جے پی کو نچلی سطح سے اٹھاکر ملک کے اقتدار تک پہونچا دیا ہے ۔ ایل کے اڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی نے جس تحریک کی ابتداء کی تھی اس تحریک کو اب نریندر مودی کی قیادت میں منطقی انجام تک پہونچایا جا رہا ہے اور رام مندر کا افتتاح کا مرحلہ پہونچ گیا ہے ۔ اب جبکہ یہ مسئلہ پانچ دہوںسے زیادہ عرصہ تک ہندوستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے بعد اپنے منطقی انجام تک پہونچ رہا ہے اس وقت بھی بی جے پی کی جانب سے اس مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ رام مندر کی ایودھیا میںجو تعمیر ہو رہی ہے وہ بی جے پی یا نریندر مودی یا کسی اور لیڈر کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ہو رہاہے ۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی مسئلہ پر جو فیصلہ سنایا ہے وہ کسی ثبوت یا شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعتقاد کی بنیاد پر سنایا تھا ۔ اس فیصلے کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ممکن ہوسکی ہے اور اب اس کی تعمیر کا ایک مرحلہ مکمل ہوا ہے ۔ حالانکہ ساری مندر کی تعمیر کیلئے ابھی دو سال کا وقت درکار ہے تاہم بی جے پی کے اثر سے متعلقہ ٹرسٹ کی جانب سے اس مندر کا افتتاح عمل میں آرہا ہے ۔ 22 جنوری کو اس افتتاح کا واحد اور بنیادی مقصد یہی ہے کہ بی جے پی کو 2024 میں دوبارہ اقتدار حاصل ہوجائے ۔
جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دن ایودھیا کا دورہ کیا ہے اور انہوں نے وہاں جس طرح کے ریمارکس کئے ہیں ان سے بھی واضح ہونے لگا ہے کہ وہ خود بھی رام مندر کے افتتاح سے سیاسی فائدہ ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے زیر اثر کام کرنے والی بی جے پی کسی بھی قیمت پر مرکز میں دوبارہ اقتدار پر قبضہ چاہتی ہے ۔ لگاتار تیسری معیاد کیلئے حکومت بنانے کی کوششوں میں رام مندر کو مرکزی مقام دیا گیا ہے ۔ جو وقت اس کے افتتاح کیلئے طئے کیا گیا ہے وہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بی جے پی کیلئے رام مندر ہندووں کے اعتقاد اور مذہبی جذبات سے زیادہ اپنے سیاسی فائدہ کا مسئلہ ہے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی لگاتار تیسری معیاد کیلئے حکومت بنانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کا اب بھی ایسا ایجنڈہ ہے جس کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے ۔ بی جے پی کیلئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے اور اسے اپنے منطقی انجام تک پہونچانے کیلئے مزید وقت درکار ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کے بنیادی ڈھانچہ اور اس کے سکیولر ازم کی ہئیت کو تبدیل کردیا جائے ۔ اس کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گی اور یہی وجہ ہے کہ تعمیراتی کام مکمل نہ ہونے کے باوجود مندر کا افتتاح طئے کردیا گیا ہے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی ایک بار پھر مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی تیاری کرچکی ہے اور وہ اس کے ذریعہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے منصوبوںکو عملی جامعہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
انتخابات چاہے اسمبلی کے ہوں یا پارلیمنٹ کے ہوں ملک اور ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی کے مسائل پر لڑے جانے چاہئیں۔ عوام کیلئے حکومتوں کی کارکردگی یا سیاسی جماعتوں کے منصوبوں کی بنیاد پر ہونے چاہئیں تاہم بی جے پی نے انتخابی روایات کو ہی تبدیل کردیا ہے ۔ جب کبھی انتخابات آتے ہیں مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے اور انہیں کے سہارے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے ۔ اب بھی مندر کو محض مذہبی امور تک محدود رکھنے کی بجائے اس کی بھی جس انداز سے تشہیر کی جا رہی ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے اور ملک کے صحیح الفکر ہندو عوام کو بھی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔