مولانا الحاج قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
ارشادِ خداوندی ہیکہ بیشک آپؐ کے اخلاق بڑے عالی ہیں (قرآن عظیم) یہ آیت مبارکہ حضور اقدس ﷺ کی مدحت سرائی بیان فرمارہی ہے اور اس میں آپﷺ کے اخلاق کریمہ کو’’ عظیم‘‘ فرمایا گیا ہے۔ صاحب روح البیان نے اِس آیت کی تفسیر میںلکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو ’شکر نوح‘ خُلّتِ ابراہیم ‘ اخلاصِ موسیٰ‘ حضرات یعقوب و ایوب کا صبر‘ حضرت سلیمان کی تواضع اور سارے انبیاء کرام کے اخلاق عطا فرمائے ہیں(علیھم السلام)خداوند قدوس جل جلالہٗ وعم نوالہٗ نے سورۂ آل عمران میں مزید ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ﷺ خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ(معاذاللہ) کہیں بدا خلاق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ اِس آیتِ شریفہ سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ آپؐ کے دشمنوں نے بھی اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آپؐ بہت ہی بلند اخلاق‘ نرم خو‘ اور رحیم و کریم ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حلم و عفو‘ عدل و انصاف ‘ جودوسخا ایثا رد قربانی‘ مہمان نوازی‘ عدم تشدد‘ شجاعت ‘ ایفائے عہد‘ حسنِ معاملہ‘ غمخواری‘ سادگی و بے تکلّفی‘ تواضع و انکساری‘ شرم و حیا و غیرہ حضور اکرم ﷺ کے محاسن اخلاق میں شمار کئے جاتے ہیں۔
حضرتہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے حضور انور ﷺ کے اخلاق کے بارے میں ارشاد فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُراٰن۔ یعنی قرآن کریم کی تعلمات پر مکمل عمل آوری ہی آپؐ کے اخلاق ہیں حضرت عبد اللہ ابن مبارک ؓ نے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ خندہ پیشانی‘ اللہ عزّوجل کی راہ میں خرچ کرنا اور کسی کو تکلیف نہ دینے کا نام ہی حسن اخلاق ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپؐ کی زندگی بہترین اخلاق و عادات کا سرچشمہ تھی۔ سچائی‘ دیانتداری بُزرگوں کی عظمت‘ چھوٹوں پر شفقت‘ رشتہ داروں سے اُلفت و محبت‘ قوم کی خدمت ‘غریبوں و مظلوموں کی خبرگیری‘ دشمنوں کے ساتھ بہتر سلوک اور تمام نیک خصلتیں آپؐ کی مزاج میں بہ درجۂ اتم موجود تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومنوں میں کامل ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو بہترین اخلاق کے مالک ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انتہائی نرم ہیں (ترمذی شریف)
حضرت سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نور اولین والآخرین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جوتم میں سے اخلاق میں اچھے ہیں ۔(ترمذی شریف)
حضرت ابودرداء ؓ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ حُسن اخلاق سے بڑھکرمیزان میں بھاری چیز کوئی نہیں ہوگی (ترمذی شریف) ایک شخص نے حضور ﷺ سے حسنِ اخلاق کے تعلق سے سوال کیا تو آپ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی ’’خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ ‘‘ اے محبوب ﷺ معاف کرنا اختیار کرو‘ بھلائی کا حُکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو (ترجمہ کنز الایمان) پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ حسن خُلقِ یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والوں سے صلہ رحمی کرے جو تجھے محروم کرے تو اُسے عطا کرے اور جو تجھ پر ظُلم کرے تو اُسے معاف کردے (مکا شفتہ القلوب)
شرح السُنّہ میں حضرت ابو محمد الحسین بن مسعود‘ فراء بغوی قدس سرہٗ نے فرمایا جسکو نرمی سے حصّہ ملا اُسے دُنیا و آخرت کی خیر کا حصہ ملا اور جو شخص نرمی کے حصہ سے محروم ہُوا وہ دُنیا و آخرت کی خیر سے محروم رہا۔امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق آعظم ؓ فرماتے ہیں کہ اگر انسان میں نو(۹) حصے اخلاق حسنہ ہوں اور ایک حصہ بداخلاق ہو تو یہ بُرا حصہ (۹) نو حصوں پر غالب آجائے گا پس زبان کی لغزشوں سے بچو۔ (تنبیہ المغیّرین) ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مرد و عورت‘ اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں بلکہ ہر ملنے جُلنے والوں کے ساتھ خوش اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔ یہ جنتی ہونے کی علامت ہے اوربدخُلقی سے بچیں کہ یہ جہنم میں لے جانی والی چیز ہے۔ اعلٰحضرت فاضل بریلوی ؒ نے کیا خوب کہا ہے ؎
تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تِری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تِرے خالقِ حسن و ادا کی قسم