رقم پراویڈ نٹ فنڈ کی نامزدگی

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ زید مرحوم کی دوبیویاں بقید حیات ہیں پہلی بیوی سے صرف دو لڑکیاں ہیں اور دوسری بیوی سے چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں مرحوم نے دونوں بیویوں کے مہر نہیں ادا کئے ہیں۔ کمپنی میں مرحوم کے حسب ذیل فنڈ ہیں۔ {۱} پراویڈ نٹ فنڈ {۲} گریجویٹی {۳} تھری فٹ فنڈ {۴}سرویس پنشن کے علاوہ دیگر فنڈ بھی ہیں۔ مخفی مباد کہ مرحوم نے اپنی زندگی میں مکمل گریجویٹی فنڈ اپنی دوسری بیوی کے نام کئے ہیں۔
ایسی صورت میں شرعا کس کو کیا حصہ ملیگا ؟
جواب : زید نے اپنی جن رقومات کے لئے دوسری بیوی کو نامزد کیا ہے وہ شرعاً وصیت کے حکم میں ہے اور وارث کے لئے وصیت جائز نہیں اسلئے وہ متروکہ میں شامل ہونگی۔ تنقیح حامدیہ جلد ۲ ص ۲۸۰ میں ہے : اِذا قال أوصیت أن یوھب لفلان سدس داری بعد موتی کان ذلک وصیتہ عملا بقولہ بعد موتی فالھبۃ بعد الموت ھی الوصیۃ۔ اور عالمگیری جلد ۶ کتاب الوصایا میں ہے ولا تجوز الوصیۃ لوارث۔
پس تمام متروکۂ زید مرحوم سے اولا تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جاکر جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دیئے جائیں، پھر مرحوم کا قرض ہو اور دونوں بیویوں کا کامل زر مہر ادا کیا جائے۔ اس کے بعد مرحوم نے اگر کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہوتو بقیہ مال کے تیسرے حصہ سے اسکی تعمیل کی جائے۔ بعد ازاں جو کچھ بچ رہے اسکے ۹۶ حصے کرکے دونوں بیویوں کو چھ چھ ، چاروں لڑکوں کو چودہ چودہ اور چاروں لڑکیوں سے ہر ایک کو سات سات حصے دیئے جائیں۔
نیاز کا کھانا فقراء و اغنیاء کھا سکتے ہیں
سوال: ۱ ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بارھویں شریف اور گیارھویں شریف کی نیازات کی دعوتوں میں فقراء و مساکین کے علاوہ عزیز و اقارب، دوست، احباب کو شریک کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
۲۔ رمضان المبارک میں بغرض ایصال ثواب ختم کلام مجید کے موقعہ پر فاتحہ دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
۳۔ پنجوقتہ نمازوں کی سنن و نوافل کے بعد سجدہ میں جاکر دعا کرسکتے یا نہیں ؟
جواب : ۱۔ صورت مسئول عنہا میں نیازات کی غرض ثواب حاصل کرنا ہے تو اس میں فقراء و مساکین، عزیز و اقارب و اغنیاء کو بھی کھلایا جا سکتا ہے ہدایہ کتاب الہبہ فصل فی الصدقۃ میں ہے : ولارجوع فی الصدقۃ لأن المقصود ھو الثواب وقد حصل وکذلک اذا تصدق علی غنی استحسانا لأنہ قد یقصد بالصدقۃ علی الغنی الثواب وقد حصل وکذا اذا وھب لفقیر لأن المقصود ھوالثواب و قد حصل۔
۲۔ فاتحہ پڑھنا جائز ہے۔
۳۔ احادیث شریفہ میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا بعد نماز مقتدیوں کی طرف چہرۂ مبارک کرکے دعا کرنا ثابت ہے۔ تنہا سجدہ سوائے سجدۂ شکر کے ثابت نہیں اور سجدۂ شکر کے لئے بھی یہ صراحت ہے کہ اس کو نماز کے متصل ادا کرنا مکروہ ہے کیونکہ جاہل لوگ اس عمل کو واجب یا سنت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلاۃ باب سجدۃ التلاوت میں ہے : وسجدۃ الشکر مستحبۃ و بہ یفتی … تکرہ بعد الصلاۃ لأن الجھر … سنۃ أو واجبۃ وکل مباح یؤدی الیہ فمکروہ۔