ریاستوں کی مدد ، مرکز کی ذمہ داری

   

نہیں ہوتی کہیں حرف تماشا
نظر تیری امانت ہوگئی ہے
ریاستوں کی مدد ، مرکز کی ذمہ داری
عالمی ادارہ صحت کی شرائط ہیں کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کئے جائیں ۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ساری دنیا اپنے حصہ کے طور پر کوشش کررہی ہے ۔ اس سال رمضان کا مہینہ مساجد میں عبادتوں کے بغیر گذر جائے گا ۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے حرمین شریفین کو بند رکھنے اور مسلمانوں کو گھروں میں ہی نماز تراویح اور عید کی نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ یہ ایک ایسا تکلیف دہ مرحلہ ہے جس سے گذرنے کے لیے عالم اسلام کو ایک کرب کے ساتھ مقدس ماہ کی عبادتوں کو انجام دینا ہے ۔ عالم اسلام کے لیے اس مہینہ کی برکتوں اور رحمتوںکے درمیان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ اور انسانی غلطیوں سے ہونے والے واقعات کو درگذر کرنے کی التجا کرنی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت نے جن 6 بنیادی باتوں کی جانب توجہ دلائی ہے اس پر آج سارا عالم عمل کررہا ہے مگر کورونا وائرس کا پھیلاؤ بتدریج جاری ہے ۔ چین سے نکلنے والے اس وائرس کے تعلق سے مختلف شواہد سامنے آنے کے درمیان یہ بات شدت سے کہی جارہی ہے کہ چین نے کورونا وائرس کے بارے میں ساری دنیا کو ابتداء میں گمراہ کرتا رہا ۔ جب وائرس کی شدت نے چین کو بھی بے بس کردیا تو اس وائرس کا پھیلاؤ ہونے تک ساری دنیا بے خبر تھی ۔ خاص کر اٹلی ، برطانیہ اور امریکہ کی حکومتیں وائرس کی وباء کی ابتداء میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہیں ۔ مگر حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو انہیں بھی کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن پر قائل ہونا پڑا ۔ آج امریکہ ہی سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں روزانہ ہزاروں اموات درج کی جارہی ہیں ۔ اٹلی میں گذشتہ دو ماہ سے سخت پابندیاں ہیں اور فی الحال غیر معینہ مدت کے لیے یہ پابندیاں جاری ہیں ۔ یہی حال فرانس ، اسپین اور بیشتر یوروپی یونین کا ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان میں لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل نہیں ہورہا ہے ۔ ہندوستان میں بعض ریاستیں کورونا وائرس سے غیر متاثر ہیں لیکن وہاں بھی حکومت کی پابندیوں کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے ۔ جن ریاستوں میں کورونا وائرس کا قہر برقرار ہے اس میں مہاراشٹرا شدید متاثر ہوا ہے ۔ تلنگانہ میں لاک ڈاؤن کی مدت کو ماہ مئی کے آخر تک جاری رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے بلدی حکام نے شہر حیدرآباد میں کورونا وائرس کے بڑھتے مریضوں کی تعداد پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ اس وباء نے ساری دنیا کو ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑا کیا ہے تو اب عوام الناس کو اس وائرس کی خطرناک صورتحال کو محسوس کرلینے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم برطانیہ بورس جانسن جب خود کورونا وائرس کے شکار ہوئے تو انہوں نے لاک ڈاؤن کی اہمیت کو سمجھا ۔ کورونا سے متاثر ہونے سے قبل تک وہ لاک ڈاؤن پر نرمی سے کام لے رہے تھے ۔ بیمار ہونے کے بعد مکمل لاک ڈاؤن کی افادیت پر زور دیا ۔ اس مہلک مرض سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاون کے ساتھ ٹسٹنگ کا عمل بھی تیزی سے کیا جارہا ہے ۔ یوروپی ممالک ہوں یا امریکہ ، یا مشرق وسطیٰ یا خلیجی ملکوں میں کورونا وائرس کی ٹسنگ تیزی سے جاری ہے ۔ مگر ہندوستان میں صرف لاک ڈاؤن پر ہی توجہ دیتے ہوئے اصل مریضوں کی زیادہ سے زیادہ نشاندہی کا عمل ندارد ہے ۔ اگر لاک ڈاؤن کو ختم کردیا جائے تو ہندوستان بھر میں ایسے کئی مریض اس مہلک مرض کو پھیلانے کا سبب بن جائیں گے ۔ لہذا ہندوستان میں لاک ڈاؤن کے ساتھ مریضوں کا پتہ چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹسٹنگ کی جانی چاہئے ۔ اس خفیہ انسانی دشمن وائرس سے ایک منفرد بحران پیدا ہوا ہے ۔ ہندوستان نے وائرس کے پھیلاؤ کو ابتداء میں نہیں روکا جیسے کہ حکومت ہند نے بین الاقوامی پروازوں کو تاخیر سے مسدود کیا ۔ اگر مودی حکومت نے چین سے آنے والے طیاروں کو پہلے ہی بند کردیتی اور دیگر ممالک سے پرواز کرنے والی فلائٹس کو بھی روک دیا جاتا تو وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا تھا ۔ پاکستان میں یہ وائرس ایران کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے مریضوں کی وجہ سے پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہونے کے بعد بھی سرحدوں اور پروازوں کو فوری بند نہیں کیا گیا ۔ نتیجہ میں آج پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے کئی مریض پائے جاتے ہیں ۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن اور عوام کو گھروں میں رہنے کی ترغیب ہے ۔ اس سے ہٹ کر محکمہ صحت کی جانب سے گھر گھر ٹسٹنگ کا عمل نہیں کیا جارہا ہے ۔ اگر ٹسٹنگ کو زیادہ سے زیادہ پورا کیا جائے تو لاک ڈاؤن کے بعد کی صورتحال زیادہ بھیانک نہیں ہوگی ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے لیکن وزیر اعظم مودی نے وائرس سے نمٹنے کا سارا بوجھ ریاستی چیف منسٹروں کے کندھوں پر ڈالدیا ہے ۔ یہ ریاستی حکومتیں بھی مرکز کی موثر تائید اور راحت و امداد کے بغیر موثر اقدامات نہیں کرسکتیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت اپنے مالیاتی اور نظم و نسق کے وسائل سے استفادہ کرنا نہیں چاہتی ۔ مرکز کی ناکامی کا خمیازہ ریاستوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ مودی حکومت کو اس نازک گھڑی میں اپنی سیاسی تعصب پسندی اور سیاسی اختلافات کو بازو رکھ کر ریاستوں کی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے اور چیف منسٹروں کی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے ۔۔
آر بی آئی کے راحت اقدامات
ریز روینک آف انڈیا کے کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ملک بھر میں نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے مالیاتی اقدامات پر توجہ دی ہے ۔ ایک لاکھ کروڑ روپئے کی راحت دے کر کمزور ہورہی ملک کی معیشت میں جان پھونکنے کے لیے مالیاتی اقدامات کئے ہیں ۔ آر بی آئی نے ریورس ریپوریٹ میں بھی کمی کی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آر بی آئی کے اقدامات کی ستائش کی ہے لیکن اس طرح کے اقدامات میں مزید تیزی لانے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا ۔ عالمی سطح پر بینکوں کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں وہ صورتحال اس وقت آر بی آئی کو درپیش نہیں ہیں ۔ آر بی آئی کا یہ موجودہ پیاکیج مثبت ہے ۔ آر بی آئی نے وائرس وباء کے اطراف پیدا ہونے والی صورتحال کا قریبی جائزہ لیا ہے ۔ غیر روایتی اقدامات سے ہی ملک کی معاشی صورتحال کو کمزور ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس غیر یقینی صورتحال اور نازک وقت میں آر بی آئی نے جمعہ کے دن اچھی پہل کی ہے ۔ اس سلسلہ میں مالیاتی شعبہ کو موثر بنانے کے لیے مزید راست اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے طویل مدتی ریپو آپریشن پر بھی توجہ دینے کا مشورہ دیا جارہا ہے ۔ مہلک مرض سے نمٹنے کے لیے ریاستوں کی کوششوںمیں مدد کرنا بھی اہم ہے ۔ آر بی آئی کو پہلے 3 کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ 3 کام ریاستوں کے لیے مالیاتی راحت کی راہ ہموار کرسکتے ہیں ۔ ریاستوں کو عارضی فنڈس کی اجرائی پر توجہ دی جائے اور مالیہ و مصارف کے درمیان پائے جانے والے فرق کو دور کرنے سے بڑی راحت ملے گی ۔ گورنر آر بی آئی شکتی کانت داس نے این پی اے قواعد میں بینکوں کو 90 دن کی راحت دی ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے اندازے کے مطابق جی 20 ممالک میں ہندوستان کو ایک قابل فروغ مقام ملے گا۔