مرکزی حکومت کی جانب سے اب ریلوے کو بھی خانگی سرمایہ کاری کیلئے کھول دینے فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ نریندرمودی حکومت نے اب تک کئی اہم شعبہ جات میں خانگی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قومی اثاثوں میں کمی کردی ہے اور خاص طور پر ٹیلی مواصلات کے شعبہ میں سرکاری نیٹ ورک بی ایس این ایل کو عملا ختم کردیا گیا ہے ۔ جس وقت ریلائنس کی جانب سے جیو فون خدمات کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت اشتہار میں وزیر اعظم کی تصویر کو تک استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو ایک طرح سے سرکاری املاک کیلئے مضر بھی کہی جاسکتی ہے ۔ ریلائنس انڈسٹریز کے صدر نشین مکیش امبانی بھی گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اور وزیر اعظم مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے ۔ ریلائنس انڈسٹریز کے بی جے پی حکومتوں سے بہترین تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہ الزامات بھی اکثر و بیشتر عائد ہوتے رہتے ہیں کہ مودی حکومت نے ملک کے چنندہ کارپوریٹ گھرانوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں فائدہ پہونچانے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں اڈانی گروپ کی مثال دی جاتی ہے ۔ 2014 سے 2020 تک اڈانی گروپ کی تجارت اور اس کے اثاثہ جات و ٹرن اوور میں سینکڑوں گنا کا اضافہ ہوگیا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اڈانی گروپ کی حوصلہ افزائی ہی کے نتیجہ میں یہ ممکن ہوا ہے ۔ اسی طرح ریلائنس انڈسٹریز کے تعلق سے بھی مودی حکومت اور بی جے پی کے نرم گوشہ کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے جیو فون خدمات کے آغاز کے موقع پر اشتہارات میں وزیر اعظم نریندرمودی کی تصویر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی خانگی کمپنی کے اشتہار میں ملک کے وزیر اعظم کی تصویر استعمال کی گئی تھی اور اس فون خدمات کے آغاز کے بعد سے ہی سرکاری بی ایس این ایل کا زوال شروع ہوگیا اور اس کو عملا ختم کرتے ہوئے ہزاروں ملازمین کو رضاکارانہ سبکدوش کردیا گیا ۔ یہی حال دوسرے شعبہ جات میں بھی ہوا ہے جہاں سرکاری اثاثہ جات کی اہمیت گھٹادی گئی ہے ۔
ہندوستان میں سب سے بڑا عوامی نیٹ ورک ریلو یز کا ہی ہے ۔ مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ریلویز کا علیحدہ بجٹ تک پیش کیا جاتا تھا لیکن شائد ابتداء ہی سے حکومت کے منصوبے اور اراردے میںاس کو خانگی شعبہ کیلئے کھول دینا شامل تھا اسی وجہ سے ریلوے بجٹ کی پیشکشی کی روایت کو ختم کردیا گیا ۔ اب حکومت نے عملا ریلویز میں خانگی سرمایہ کاری بلکہ کچھ روٹس کو خانگی شعبہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس پر بھی اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ اب ریلویز میں بھی ملازمتوں میں تخفیف اور کمی کے شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ یہ شبہات اس لئے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کیونکہ اب تک جن جن شعبہ جات میں خانگی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تھی وہاں سرکاری ملازمتوں میں بڑی حد تک کمی کردی گئی تھی ۔ اس کی واضح مثال بی ایس این ایل سے ملتی ہے ۔ ریلویز میں خانگی شعبہ کے داخلہ کا فیصلہ اس حقیقت کے باوجود ہوا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ ریلوے ز کو خانگیانے کا عمل شروع نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان کا دعوی تھا کہ ملک میں سب سے زیادہ ریلویز انہیں کو محبوب ہے کیونکہ انہوں نے ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچی تھی ۔ اس وعدے کے باوجود اب ریلویز میں خانگی شعبہ کے داخلہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔ اب کوئی وزیر اعظم کو ان کا وعدہ یاد دلانے والا نہیں رہ گیا ہے اور اگر کوئی ایسی کوشش کرے بھی تو یہ بے سود ہوگی اور ایسی کوشش کرنے والوں کو قوم مخالف یا ملک دشمن قرار بھی دیا جاسکتا ہے ۔
مودی حکومت نے کئی مواقع پر کہا کچھ اور کیا کچھ اور ہے ۔ حکومت کے مختلف ذمہ داران مختلف آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اب مودی حکومت کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ آخر نریندر مودی کے اعلان کے برخلاف عمل کیوں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت یہ بات راست طور پر قبول کرنے سے گریز کریگی کہ ریلویز میں خانگی شعبہ کی سرمایہ کاری کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ حکومت اس کیلئے نئے نام اور نئے فارمولے اختیار کریگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ریلویز جیسا اہم ترین شعبہ بھی اب خانگی شعبہ کی اجارہ داری کا مرکز بن سکتا ہے ۔ ملک کے غریب عوام کو جو سفر کی سہولت ٹرینوں سے دستیاب تھی اور بڑی حد تک عوام کی دسترس میں تھی اب عوام اس سے بھی محروم ہوجائیں گے کیونکہ خانگی کمپنیاں من مانی انداز میں کرائے مقرر کرینگی اور عوام انہیں ادا کرنے کیلئے مجبور ہونگے ۔
کورونا ویکسین کا تجربہ
ملک بھر میں کورونا وائرس کے بحران نے اپنا قہر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ یومیہ ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں اور سینکڑوں افراد کی جانیں جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا کے علاج کیلئے ویکسین کی کھوج کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں اس تعلق سے ریسرچ شروع ہوچکی ہے اور مختلف تجربات کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک اس وائرس کی دوا کھوجنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ ہندوستان میں بھی اس وائرس کی دوا کھوجنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی جانب سے 15 اگسٹ تک دوا کھوج لینے کی مہلت کا تعین کیا گیا ہے ۔ اس پر اعتراضات ہو رہے ہیں اور کونسل کا کہنا ہے کہ ہندوستانیوں کی جان بچانا اس کی ترجیح ہے اس لئے یہ تجربات تیزی سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یقینی طور پر ہر ہندوستانی اور ہر انسان کی جان کی اہمیت ہے اور اس کا تحفظ ہر ایک کی اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن محض اپنے دعووں کو درست ثابت کرنے کیلئے جلد بازی میں کسی نتیجہ پر پہونچنا مناسب نہیں ہوگا ۔ اگر جلد از جلد اس وائرس کی دوا ایجاد کرلی جاتی ہے تو یہ قابل خیر مقدم ہوگا لیکن محض ایک مقررہ وقت کے اندر دواکھوجنے کے چیلنج کو پورا کرنے کیلئے درکار طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ دینا درست نہیں ہوگا ۔ جو تجربات اور جو آزمائشیں اس کیلئے ضروری ہیں ان کا پورا خیال رکھا جانا چاہئے اور ایک موثر دوا کی ایجاد کیلئے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے لیکن دوا کو موثر اور زود اثر بنانے کیلئے جو مروجہ طریقہ کار ہے اس کی تکمیل کی جانی چاہئے کیونکہ موثر دوا ہی جان بچانے کا ذریعہ ہوسکتی ہے ۔