بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے
انفارمیشن ٹکنالوجی کے فروغ اور اس کی غیر معمولی ترقی نے جہاں عوام کیلئے نئے نئے مواقع پیدا کئے ہیں اور انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا ہے وہیں اس کے بیجا اور غلط استعمال کے ذریعہ عوام کو نشانہ بنانے کے طریقے بھی ایجاد ہوگئے ہیں۔ کسی نہ کسی طریقے اور بہانے سے بھولے بھالے عوام کو ٹھگا جا رہا ہے ۔ بات صرف روپیہ ٹھگنے کی حد تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ جانوں سے بھی کھلواڑ کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کسی نہ کسی انداز میں کسی نہ کسی حربے سے عوام کو ٹھگنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ۔ اس کا سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور عوام اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے حالانکہ ان سے نمٹنے کیلئے اپنی جانب سے حتی المقدور کوشش کی جا رہی ہے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن انٹرنیٹ جس تیزی کے ساتھ پھیل گیا ہے اور سبھی کے ہاتھوں تک پہونچ گیا ہے اس کے نتیجہ میں سائبر دھوکہ بازوں پر پوری طرح سے قابو پانا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ کہیں انعام حاصل ہونے کے بہانے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے تو کہیں بینک عہدیدار کے نام سے کال کرتے ہوئے او ٹی پی مانگا جا رہا ہے اور پھر اکاؤنٹ کو لوٹا جا رہا ہے ۔ اب نئے انداز اور خوفناک انداز سے کام شروع کیا گیا ہے ۔ اب ڈیجیٹل گرفتاری کے نام پر ٹھگا جا رہا ہے ۔ کسی کو کسٹمس حکام کے نام سے تو کسی کو پولیس عہدیدار کے نام سے خوفزدہ کرتے ہوئے رقومات لوٹی جا رہی ہیں۔ کہیں لڑکیوں کی عصمتوں کا تک حوالہ دیا جا رہا ہے اور ان کو بھی بدنام اور رسواء کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کہیں لڑکی کے نام سے فون کرتے ہوئے پھانسا جا رہا ہے ۔ غرض یہ کہ کوئی طریقہ اور حربہ باقی نہیں رکھا گیا ہے جس کے ذریعہ عوام کو ٹھگا نہیں جا رہا ہے ۔ اس طرح سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے کہ لوگ پریشان ہو رہے ہیں اور انہیںکچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے ۔ فوری اور چند منٹوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے ٹھگے جا رہے ہیں اور پھر جب تک لوگوں کو دھوکہ کا شکار ہونے کا پتہ چلتا ہے اس وقت تک یہ دھوکہ باز اپنے مقصد کو پورا کرکے چلتے بنتے ہیں۔ یہ سارا کچھ سماج کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن رہا ہے اور اس پر قابو پانا ضروری ہے ۔
نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے جب تک اس طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی پہل کی جاتی ہے اس وقت تک کوئی نیا طریقہ اختیار کرلیا جاتا ہے ۔ خاص طور پر ڈرگس اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ کسٹم چوری کا دعوی کیا جاتا ہے ۔ لڑکیوں کے تعلق سے شرمناک الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور پھر رقومات اینٹھ لی جاتی ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں سائبر دھوکہ بازوں کیلئے کئی طرح کی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تعلق سے پوری سنجیدگی سے غور کیا جائے ۔ عوام میں شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے اور عوام کو بھی اپنے طور پر ایسے سائبر دھوکوں سے بچنے کیلئے چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی بھی اگر فون کرتے ہوئے کسی طرح کا مطالبہ کرے تو فوری اس کی تکمیل کی بجائے حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ خاندان اور دوست احباب سے اس تعلق سے معلومات حاصل کی جانی چاہئیں۔ فوری طور پر کسی کے جھانسے میں پھنسنے کی بجائے اگر حواس قابو میں رکھے جائیں اور چوکسی برتی جائے تو پھر سائبر دھوکہ بازوں کے جال سے بچنا زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا ۔ حکومت اور پولیس فورس کو اس معاملے میں خاص طور پر سنجیدگی سے ایسے دھوکوں کا کوئی سدباب کرنے کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ان کی تجاویز حاصل کی جانی چاہئیں۔
عوام کو اپنے طور پر شعور بیدار کرنے والے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔ خاندان اور گھر میں ایک دوسرے کو اس طرح کی صورتحال سے واقف کروانے اور کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر چوکسی سے کام کرنے کا مشورہ دیا جانا چاہئے ۔ حکومت کو اس طرح کے معاملات میں محض ضابطہ کی کارروائیوں پر اکتفاء کرنے کی بجائے کوئی سخت ترین قانونی اقدامات کا آغاز کرنا چاہئے ۔ چند ایک کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تو پھر دوسروں کو اس طرح کے جرائم کا حصہ بننے سے روکا جاسکتا ہے ۔ سماج کے بھولے بھالے عوام کو دھوکہ بازوں سے بچانے کیلئے موثر اور جامع انداز میں حکمت عملی بناتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔