قاری محمد مبشر احمد رضوی القادی
ہر صدی اور ہر دور میں کچھ ایسے پاکیزہ نفوس پیدا ہوتے ہیں جنھوںنے مردہ قوم میں زندگی کی روح پھونک دی اور برسوں سے سوئی ہوئی قوم کو خوابِ غفلت سے جگا کر اُنہیں منزل مقصود پر پہنچاکر دین اسلام کی نصرت اور مذہب اہلسنت کی ہمایت کو جُزِ زندگی بنادیا اور دشمنان اسلام کے بالمقابل صف آرا رہے ۔ یہ وہ مقدس ہستیاںتھیں جنھیں ا للہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے گمراہوں کی ہدایت سرکشوں کی اصلاح اور حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے کیلئے پیدا فرمایا ۔ حق گوئی اور راست بازی جنکا شعار تھا۔ یہ وہ قدسی صفات حضرات ہیں جن کی موت کو قرآنِ کریم نے زندگی سے تعبیر کیا ہے ۔ اُنھیں برگزیدہ حضرات میں سیدنا امام جعفر صادق ؓکی ذات بابرکت بھی ہیں ۔ آپ سیدنا امام محمد باقر ؓ کے نور نظر لخت جگر اور بڑے صاحبزادے ہیں ۔آپ کی ولادت با سعادت ۱۷؍ ربیع المنور ۸۳ھ روز دوشنبہ عمل میں آئی ۔ آپ کا پورا نام نامی اسم گرامی جعفر بن محمد بن حسین بن ابو طالب ‘ کنیت ابو عبد اللہ اور لقب صادق ہے۔ آپ نے علم حدیث اپنے والد ماجد حضرت سیدنا امام محمد باقر ؓ اور دوسرے اکابرینِ وقت سے حاصل فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ سے مشہورِ زمانہ عظیم المرتبت ہستیاں حضرت سیدنا امام آعظم ابو حنیفہ ؓ ‘ حضرت سیدنا امام مالک ؓ‘ حضرت سیدنا سفیان سوریؒ اور دیگر اسلاف نے حصول علم میں شرف تلمّذ حاصل کیا۔ آپؓ کے زہد و تقویٰ ریاضت و مجاہدہ کے احوال بیشمار ہیں۔
حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ میںایک زمانہ تک آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر رہا ہر وقت آپکو تین عبادتوں میں سے ایک میں ضرور مصروف پایا یا تو آپ نماز پڑھتے ہوئے پائے گئے یا تلاوت کلام ربّانی میں مصروف رہے یا حالت روزہ میں نظر آئے۔ بلا وضو کبھی آپ نے حدیث شریف کی روایت نہیں فرمائی ۔ آپؓ کی دعا بہت جلد مقبول ہوتی تھی۔ اسی لئے آپ مستجاب الدعوات اور کثیرالکرامات واقع ہوئے ہیں ۔ جب آپ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ دستِ دعا کو دراز کرتے فوراً وہ دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوجاتی اور جس چیز کی تمنّا فرماتے وہ چیز جلد دستیاب ہوجاتی تھی۔
خلیفہ بغداد منصور عباسی آپ کا دشمن تھا ایک دن اُس نے اپنے وزیر سے کہا کہ تم امام جعفر صادق کو دربار میں حاضر کرو تاکہ میں (معاذ اللہ) انھیں قتل کردوں۔ وزیر نے امام ممدوح کو طلب کیا خلیفہ نے جلّادو کو حکم دیا کہ جوں ہی امام جعفر صادق ؓ دربار میں حاضر ہونگے میں اپنا تاج سر سے اُتار دونگا فوراً تم لوگ اُنھیں قتل کردینا ۔ جب امام دربار شاہی میں تشریف لائے تو ناگہاں منصور عبّاسی گھبراکر کھڑا ہوگیا اور حضرت امام کو کرسیٔ صدارت پر بٹھاکر آپ کے روبرو مؤدب ہوکر بیٹھ گیا۔ جلّادوں کو سخت تعجب ہوا کہ منصوبہ کچھ تھا ہوا کچھ اور! خلیفہ بغداد منصور عبّاسی نے کہا کہ اے امام آپ کو کوئی حاجت ہو تو بیان فرمائیے تو حضرت امام جعفر صادق ؓ نے ارشاد فرمایا کہ بس میری خواہش یہی ہے کہ آئندہ مجھے دربار شاہی میں کبھی نہ بلایا جائے تاکہ میں اطمینانِ کلّی کے ساتھ عبادت الٰہی میں مصروف و مشغول رہوں۔ منصور نے عاجزانہ انداز میں آپ کو رخصت کیا ۔ وقت رخصت منصور کا بدن لرزہ براندام تھا۔ حضرت امام کے تشریف لیجانے کے بعد وزیر نے خلیفہ بغداد کے جسم کے لرز جانے کا سبب دریافت کیا تو منصور نے جواب دیا کہ جب امام دربار میں داخل ہوئے تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک اژدہا منہ پھیلائے امام کے ساتھ ہے وہ گویا اپنی زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اگر تونے امام کو ستایا ‘ گستاخی یا بے ادبی کی تو میں تجھے نگل جاؤں گا۔ چنا نچہ موت کے خوف سے میرے جسم کا بال بال کانپنے لگا اور میں نے خوف و ہراس کے عالم میں امام کے ساتھ جو سلوک کیا اُس کو تم لوگوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہے۔۱۵؍ رجب المرجب ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں آپؓ نے وصال فرمایا اور جنت البقیع میں اپنے والد ماجد حضرت سیدنا امام محمد باقر ؓ کے پہلو میں آرام فرما ہے۔