ڈاکٹر سید حسام الدین
آنحضرت ﷺ کی جناب میں عقیدت ، مودت اور محبت کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے مختلف انداز اپنائے گئے ۔ اس ضمن میں شعراء اُردو نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حضور اپنے جذبات کے اظہار کیلئے ’’نعت ‘‘ کو وسیلہ بنایا ۔ نعت کا ایک مقبول عام انداز بارگاہِ رسول ﷺ میں درود و سلام وغیرہ بھیجنے سے متعلق ہے ۔ چونکہ آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا حکم خداوندی ہے جس کا اظہار سورۂ احزاب کی آیت اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا o
اُردو میں سلام کی پیشکشی کی روایت قدیم سے چلی آرہی ہے ۔ سلام کا نذرانہ صرف آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک تک محدود نہیں ۔ آپؐ کے علاوہ امام حسینؑ ، اہل بیت ، حضرت غوثِ اعظم دستگیرؓ اور دیگر اولیائے کرام کے حضور سلام پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ میر انیسؔ نے امام حسینؑ کے حضور کئی سلام پیش کئے ۔ لیکن عموماً سلام آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کے لئے مختص سمجھا جاتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ کے حضور ایک سے بڑھ کر ایک سلام پیش کئے گئے جیسے حفیظ جالندھری کا سلام ؎
سلام اے آمنہؓ کے لال اے محبوب سبحانی
تیرا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوح پیشانی
اس کے علاوہ اعلحضرت رضا خاں بریلوی کے سلام ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
رضا خان صاحب بریلوی کے مذکورہ سلام کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی مسجدوں ، مذہبی محفلوں اور اعراس کے موقع پر اس سلام کو کثرت سے پڑھا جاتا ہے ۔ اور ایک مشہور و معروف سلام ؎
اے صبا مصطفیٰ سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں
یاد کرتے ہیں تم کو شام وسحر دل ہمارے سلام کہتے ہیں
اے خدا کے حبیب پیارے رسول یہ ہمارا سلام کیجئے قبول
آج محفل میں جتنے حاضر ہیں مل کے سارے سلام کہتے ہیں
یہ سلام جب پڑھا جاتا ہے محفل پر رنج و غم کا عجیب ماحول پیدا ہوجاتا ہے ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل یادِ نبیؐ سے مضطرب ہوجاتا ہے۔
حیدرآباد دکن کو شروع ہی سے عشق رسول اور مدحتِ مصطفیؐ کے سلسلہ میں امتیاز حاصل ہے ۔ یہاں کے شعراء اور دیگر فنکاروں نے طرح طرح سے بارگاہِ صلعم میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ یہاں پر سلام پڑھنے اور سننے کی روایت جزو ایمان بن گئی ۔ حیدرآباد میں حضرت عشقیؔ کا سلام پورے ادب و احترام کے ساتھ تمام درگاہوں ، مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر پڑھا جاتا ہے ۔ عشقیؔ کا یہ سلام ؎
یا شفیع الوری سلام علیک
یا نبی الھدی سلام علیک
خاتم الانبیاء سلام علیک
سیدالاصفیاء سلام علیک
مذکورہ سلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عربی زبان میں لکھا گیا ہے لیکن اسے اس جوش و جذبہ کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ بہ زبان عربی نظم کیا گیاہے ۔
حضرت عشقیؔ سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع بیدر کے رہنے والے تھے لیکن شہر حیدرآباد کو اپنا مسکن بنالیا تھا ۔ عشقیؔ صاحب کی ساری زندگی مدحت رسولؐ میں صرف ہوئی ان کے نعتیہ اشعار مولود کی محفلوں میں دل کو تڑپاتے اور روح کو گرماتے ہیں ۔ حضرت عشقیؔ کو حیدرآباد کے مشہور بزرگ حضرت افتخار علی شاہ چشتیؒ سے بیعت تھی ۔
دیگر سلاموں کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں جس سلام کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ ماہرؔ القادری کے سلام ؎
سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
یوں تو سرکارِ دوعالم ﷺ کے حضور بے شمار سلام پیش کئے گئے لیکن ماہرؔ کے اس سلام کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ ماہرؔ القادری نے اپنے اس اسلام میں حضور کی سیرت طیبہؐ کے تقریباً اکثر پہلوؤں کو نظم کیا ہے۔
اگر کوئی نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے اجمالی طورپر واقفیت حاصل کرنا چاہے تو اس سلام کا مطالعہ کافی ہے ۔
ماہرؔالقادری تقریباً تیرہ سال حیدرآباد دکن میں مقیم رہے ۔ ان دنوں حیدرآباد ارباب علم و فن کا مرکز تھا ۔ ماہرؔالقادری کی شاعری حیدرآباد کے شعریت سے بھرپور اس ماحول میں پروان چڑھی ۔ چنانچہ ماہرؔکہا کرتے تھے کہ اگر حیدرآباد دکن میں رہنے کا موقع نہ ملتا تو ان کی شعری اور ادبی صلاحیتیں پوری طرح اُبھر نہ پاتیں ۔
ماہرؔ کی زندگی عشق محمدؐی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اگر آنحضرت ﷺ کا ذکر آجاتا ہے تو اُن کی آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے ۔ اشکباری کا یہ سلسلہ کئی کئی دن جاری رہتا ۔ اسے اتفاق کہیے یا عشق رسولؐ کی انتہاء ماہرؔ القاریؒ کا انتقال ایک نعتیہ محفل میں ہوا جو سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوئی تھی ۔
… جاری ہے