سلسلۂ چشتیہ کے نامور محقق ، تعلیمی تحریک کےعظیم سپہ سالار محسن ملت حضرت سید شاہ گیسودراز حسینی خسرو پاشاہ کا سانحہ ارتحال

   

تصوف اسلام کی روح ہے، شریعت کا ثمرہ ہے۔ تصوف کے اُصول اور طریقے انسانی تخلیق کی غرض و غایت اور مقصد و مراد کی تحصیل میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ تصوف درحقیقت نبی اکرم ﷺ کے ظاہری اعمال و احکام کی سختی سے پابندی کے ساتھ آپ ﷺ کی باطنی کیفیت ، قلبی احوال اور ذوق و وجدان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کا نام ہے ۔ یعنی ظاہری اعمال اور باطنی کیفیات میں نبی اکرم ﷺ کی کامل اتباع کی عملی تربیت کو تصوف کہتے ہیں اور یہی شریعت کا مقصود و مطلوب ہے۔نبی اکرم ﷺ نے اجتماعی طور پر اُمت اسلامیہ کے لئے شریعت مطہرہ کو نافذ فرمایا ہے جو کہ تا قیام قیامت ساری اُمت کے لئے دستور حیات ہے اور انفرادی طور پر صحابہ کرام کی اُن کی استطاعت ، ذوق و شوق ، فکر و مزاج، حاجت وضرورت کے مطابق قلبی اصلاح فرمائی اور روحانیت کو جلا بخشی اور اسی Transformation کے Proces کو ’’تزکیہ ‘‘کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ تصوف کے اُصول و قواعد اور اصلاح و تربیت کے طریقے و اجتماعی طور پر پوری اُمت کے لئے قطعاً لازم نہیں ہیں بلکہ شیخ کامل اپنے مریدین یعنی طالبان صادق و متلاشیانِ راہِ حق کی اُن کی استعداد ولیاقت ،روحانی Capasity ، قلبی کیفیت نیز نفس کی Strength اور Weakness کے مطابق شریعت کے کامل دائرے میں اُن کے قلبی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج کرتا ہے اور دنیاوی آلائشوں ، جسمانی خوا ہشوں اور نفسانی حملوں سے جسم وروح کو محفوظ رکھنے میں اُن کی مدد کرتا ہے اور اُن کو اتباع نبوی اور تقوی و پرہیزگاری کی مشق کروا کر روحانی مدارج کو طے کرواتا ہے۔ تصوف و طریقت، شریعت کا لب لباب کے حصول کا ذریعہ ہے کوئی Parallel یا شریعت مطہرہ سے اعلیٰ قسم نہیں ۔ بناء بریں تصوف میں شرعی احکام کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں: ’’پیر ایسا ہونا چاہئے کہ احکام شریعت طریقت اور حقیقت کا علم رکھتا ہو، اگر ایسا ہوگا تو خود کسی نا مشروع چیزکے لئے نہ کہے گا‘‘(فوائد الفواد ) حضرت خواجہ محبوب الٰہیؒ کا یہ اُصول تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کو جو عالم نہ ہو خلافت عطا نہیں فرماتے تھے ۔ (سیر الاولیاء ) حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں حضرت یحییٰ معاذ رازی کا قول نقل فرماتے ہیں: ’’تین قسم کے آدمیوں کی صحبت سے بچنا چاہیئے ایک غافل عالم سے اور دوسرے مکار فقیر سے اور تیسرے جاہل صوفی سے ‘‘۔ پس تصوف کے تمام سلاسل نبی اکرم ٍ سے جاری ہوئے ہیں اور ہر سلسلہ میں بڑے سے بڑے اولیا ظا ہر ہوئے ۔ کسی ایک سلسلہ پر فخر ناز کرنا اور دوسرے سلاسل کو نیچی نظروں سے دیکھنا بے ادبی اور کم علمی ہے ۔ ہر سلسلہ کی اپنی خصوصیات اور امتیازات ہیں تاہم سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں شریعت پر سختی سے پابندی کے لئے تربیت نفس اور تہذیب اخلاق کے لئے سخت ریاضتیں پائی جاتی ہیں اور اس سلسلہ میں قلب و ذہن اِس حد تک وسیع ہوجاتے ہیں کہ دوست تو دوست دشمن بھی دوست ہو جاتا ہے ۔ خود تو وہ جادۂ شریعت پر گامزن رہتا ہے لیکن اسمیں غیر معمولی Toleranceاور Acceptance پیدا ہوجاتی ہے ۔ مسلک و مشرب تو دور کسی بھی دین و مذہب کے حامل شخص سے متعلق اس کے دل میں بغض و دشمنی کے جذبات بالکل نہیں رہتے بلکہ وہ بلالحاظ مذہب وملت انسانیت کی خدمت کو محبت حقیقی کی نشانی اور مدارج اُخروی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ کی ایک عظیم ہستی کا نام نامی حضرت خواجہ سید محمد الحسینی بندہ نواز گیسو دراز ( ۷۲۱۔ ۸۲۵ھ )  ہے ۔ دکن میں آپؒ کی بارگاہ کو خاص مقبولیت اور مرکزیت حاصل ہے ۔ اورنگ زیب عالمگیر کا مشہور شعر ہے ؎
نیست کعبہ در دکن جز درگاہِ گیسو دراز
بادشاہِ دین و دنیا تا ابد گیسو دراز
چنانچہ آپ کے خانوادہ میں ۲۹؍ ڈسمبر ۱۹۲۲؁ ء کو حضرت سید محمد محمدالحسینی ؒ کی ولادت ہوئی ۔ سلسلہ چشتیہ کی انسانیت نواز اور جذبۂ خدمت خلق پر مبنی تعلیمات کو ایک نئی جہت دی اور مچھلی سے ضیافت کرنے کی بجائے ملت کے نونہالوں کو مچھلی پکڑنا سکھایا اور تعلیمی میدان میں ایک انقلاب بپا کیا اور Educational Institutions کا جال بچھایا۔ ۱۹۵۸؁ ء میں لڑکیوں کے اسکول کے قیام سے اپنے Mission اور Vision کا آغاز کیا ۔ ۱۹۶۶؁ ء میں خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی رجسٹرڈ کی پھر دھیرے دھیرے Primary Secondary اسکول قائم کئے Higher Education کے ادارے قائم کیئے ۔ کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا میڈ یکل کالج ، انجینئر کالج ، خواتین کے لئے علحدہ کالجس اور ہاسٹلس بنائے۔ ۱۹۸۳؁ ء میں درگاہ کے تحت دینی مراسم کا دوبارہ احیاء کیا اور مدرسہ کی ترقی کے لئے ہر ممکنہ کوشش کئے ۔ آپ ہمیشہ شریعت اور طریقت دونوں کو جمع کرنے پر زور دیتے اور اپنے پیامِ بندہ نوازی میں یہ شعر ضرور پڑھتے؎ یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم ، جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۔
آپ کو جامعہ نظامیہ سے غیرمعمولی محبت اور تعلق تھا اور علماء نظامیہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے ۔ بلاشبہ آپ دکن کی مسلم اقلیت میں دینی و دنیاوی تعلیمی تحریک کے روح رواں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرزند اکبر حضرت سید شاہ گیسو دراز حسینی خسروؔ پاشاہ ( ۱۰ سپٹمبر ۱۹۴۵؁ء ۔ ۶ نومبر ۲۰۲۴؁ء ) کی شکل میں ایک مضبوط سپہ سالارسے سرفراز فرمایا ۔ جنکی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں Grammer School میں ہوئی ۔ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور ۱۹۶۷؁ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرس کیا۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے کینیڈا تشریف لے گئے اور McGill University سے اسلامک اسٹڈیز  اور صوفی ازم میں اسٹریس کی تکمیل کی اور ’’حضرت بندہ نواز گیسودراز اور تصوف ‘‘کے زیرعنوان اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا ۔ ۱۹۷۶؁ ء میں یہ مقالہ شائع ہوا جو آپ کے تحقیقی ذوق کا غماز ہے جس میں آپ نے ’’ولایت‘‘ اور ’’سماع‘‘ دو نہایت متنازعہ عنوانات کو زیر بحث لایا اور بڑی محققانہ انداز میں متنازعہ موضوعات پر سیر حاصل بحث کی اور برملا اپنی رائے کا اظہار کیا اور نبوت اور ولایت کے مسئلہ میں اہلسنت کی تالیفات میں شیعی نظریات کے اختلاط سے پیدا ہونے والی اُلجھنوں کو بیان کیا۔ وحدۃ الوجود سے متعلق ہرپہلو پر گفتگو کرنے کے بعد واضح کیا کہ بندہ نواز گیسودراز قدس سرہ کا نظریہ ’’وحدۃ الشھود ‘‘ کا ہے ۔ کتاب کے آغا ز میں سلاسل تصوف اور چشتیہ سلسلہ کی خصوصیات پر جامع مقدمہ لکھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ کی تعلیمات کے ماہر رہے بلکہ سلسلۂ چشتیہ کے عظیم محقق بھی رہے ۔ آپ صاحب دیوان شاعر تھے ۲۰۰۲؁ ء میں آپ کا نعتیہ دیوان ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘ شائع ہو چکا ہے اور آپ کی متعدد تالیفات زیر طبع ہیں۔ آپ اپنے والد گرامی کے عظیم مشن پر گامزن رہے اور ملی اور تعلیمی خدمات کو ترجیح دی ۔ آپ کرناٹک وقف بورڈ نیز قومی وقف کونسل کے رکن رہے۔ آپ نے تعلیمی اداروں کو بڑی وسعت دی یہاں تک کہ ۲۳ فبروری ۲۰۱۷؁ء کو خواجہ بندہ نواز یو نیورسٹی کے قیام کے لئے درخواست دی جو کہ ۲۳ اگسٹ ۲۰۱۸؁ء کو منظور ہوئی اور آپ خواجہ بندہ نواز یو نیو رسٹی کے پہلے وائس چانسلر منتخب ہوئے ۔ آپ کل ہند صوفی کانفرنس کے بانی اور صدر رہے ۔ جامعہ نظامیہ کی انتظامی کمیٹی کے رکن رہے۔ آپ کو جامعہ نظامیہ سے بڑی محبت رہی اور جامعہ نظامیہ کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کا حد درجہ لحاظ فرماتے ۔ علماء اور مشائخ کے درمیان عزت و احترام اور پیار و محبت کا عمدہ نمونہ دیکھنے میں آتا۔ آپ کے انتقال سے خانقاہی نظام میں ناقابل تلافی خلاء پیدا ہوا ہے ۔ ایسے وقت جبکہ حیدر آباد کی خانقاہوں نے بڑا مایوس کیا ہے آپ کا انتقال ایک عظیم نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ہم کو آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوم و ملت کے لئےکام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین