سورہ ٔفاتحہ معانی سے لبریز دل نشین سورت

   

سورہ فاتحہ وہ مختصر لیکن حقائق اور معانی سے لبریز ، دل نشین ودل آویز جلیل القدر سورت ہے جس سے اس مقدس آسمانی کتاب کا آغاز ہوتا ہے جس نے تاریخ انسانی کا رُخ موڑ دیا۔ جس نے فکر ونظر میں انقلاب پیدا کر دیا۔ جس نے قلب وروح کو نئی زندگی بخش دی۔ اس پاک سورت کی گوناں گوں برکات کو کیوں کر قلمبند کیا جا سکتا ہے۔ وہ متعدد نام جن سے نبی اکرم (ﷺ) نے اس سورت کو یاد فرمایا حقیقت شناس نگاہوں کو ان فیوض وبرکات سے آشنا کر دیں گے جو اس میں بڑی خوبصورتی سے سمو دئیے گئے ہیں۔ ان ناموں سے چند یہ ہیں: ٭ الفاتحہ : رحمت وحکمت کے خزانے کھولنے والی۔ ٭ فاتحۃ الکتاب : قرآن حکیم کے سربستہ روزوں کی کلید۔ ٭ ام القران : حقائق قرآنی کا ماخذ ومنبع ۔٭السبع المثانی : بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں۔٭الشفاء : جسمانی اور روحانی بیماریوں کا تریاق۔یہ سورت پاک مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس میں ایک رکوع ، سات آیتیں ہیں۔ اس کے الفاظ کی تعداد پچیس ہے اور حروف کی تعداد ۱۲۳ہے۔

اسلامی آداب معاشرت میں بسم اللہ الخ کو اہم مقام حاصل ہے۔ ہمیں ہمارے ہادی ومرشد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سبق دیا ہے کہ ہر کام بسم اللہ الخ سے شروع کرو ۔ بلکہ یہاں تک فرمایا ’’دروازہ بند کرو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ دیا بجھاؤ تو اللہ کا نام لیا کرو۔ اپنے برتن ڈھانپو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ اپنی مشک کا منہ باندھو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ ‘‘ (تفسیر القرطبی )مقصد یہ ہے کہ ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا کرتے وقت انسان اپنے کارساز حقیقی کا نام لینے کا خوگر ہوجائے تاکہ اس کی برکت سے مشکلیں آسان ہوں۔ اس کی تائیدونصرت پر اس کا توکل پختہ ہوجائے۔ نیز جب اسے ہر کام شروع کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی عادت ہوجائے گی تو وہ ہر ایسا کام کرنے سے رُک جائے گا جس میں اس کے رب تعالیٰ کی ناراضگی ہو۔ امام قرطبی نے صحیح سند سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ عثمان ؓبن ابی العاص نے شکایت کی کہ یا رسول اللہ (ﷺ) جب سے مشرف با اسلام ہوا ہوں جسم میں درد رہتا ہے۔ تو حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ جہاں درد ہو وہاں ہاتھ رکھ کر تین بار بسم اللہ الخ پڑھو اور سات بار یہ جملہ کہو’’ أَعُوْذُ بِعِزَّةِ اللّٰهِ وَقُدْرَتِهٖ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ‘‘۔
اللہ معبود حقیقی کا علم ذاتی ہے۔ ذات باری کے علاوہ کسی کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔یہ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ ان کا ماخذ رحمت ہے۔ اور رحمت الٰہی سے مراد اس کا وہ انعام واکرام ہے جس سے وہ اپنی مخلوق کو سرفراز فرماتا رہتا ہے۔ وجود، زندگی، علم، حکمت، قوت، عزت اور عمل صالح کی توفیق سب اس کی رحمت کے مظاہر ہیں ۔ یہ اس کی بےپایا رحمت ہی تو ہے جس نے کسی استحقاق کے بغیر انسان کی جسمانی اور روحانی بالیدگی کے سب سامان فراہم فرما دئیے۔ یہ اس کی بےحدو بےحساب رحمت ہی تو ہے کہ ہماری لگاتار ناشکریوں اور نافرمانیوں کے باوجود وہ اپنے لطف وکرم کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ کبھی آپ نے غور فرمایا کہ قرآن اللہ کی جس صفت کا سب سے پہلے ذکر کرتا ہے وہ صفت قہاریت وجباریت نہیں بلکہ صفت رحمانیت ورحیمیت ہے۔ یہ اس لیے کہ بندہ کا جو تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اس کا دارومدار خوف وہراس اور رعب ودبدبہ پر نہ ہو۔ بلکہ رحمت ومحبت پر ہو۔ کیونکہ یہی وہ اکسیر ہے جس سے انسان کی خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہے اور پنہاں توانائیاں آشکار۔ اور یہی معراج انسانیت ہے کہ انسان اپنے آپ کو عیاں دیکھ لے ۔ بعض حق ناشناس کہتے ہیں کہ اسلام کا خدا خونی ہے اور اپنے ماننے والوں کو خونخواری سکھاتا ہے۔ کاش وہ اسلام کی مقدس کتاب کے پہلے صفحہ کی پہلی آیت ہی پڑھ لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ اسلام کا خدا خونخواری نہیں، الرحمن ہے۔ اس کی رحمت کا وسیع دامن کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنے آغوش لطف وکرم میں لیے ہے ۔ اسلام کا خدا سفاک نہیں بلکہ الرحیم ہے اس کی رحمت کا بادل ہر وقت برستا ہی رہتا ہے۔
جیسے پہلے عرض کی یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں۔ ان کا معنی صرف رحمت کرنے والا نہیں بلکہ بہت اور ہر وقت رحمت کرنے والا ہے۔ لیکن الرحمن میں الرحیم سے بھی زیادہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہی رحم فرمانے والا۔ اتنی رحمت فرمانے والا ہے جس سے زیادہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ معناہ المنعم الحقیقی البالغ فی الرحمۃ غایتھا وذلک لا یصدق علی غیرہ (بیضاوی ) اسی لئے الرحمن کا اطلاق بجز ذات الٰہی کے کسی پر نہیں ہو۔ مسئلہ: بسم اللہ الخ کلام الٰہی ہے ۔ دو سورتوں میں الگ کرنے کے لئے اس کا نزول ہو۔ یہ نہ سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔ نال سورۃ کی آیت ہے نہ کسی صورت کی ۔ ہاں سورۃ النمل کی ایک آیت کا جزو ہے۔ اس لیے احناف ومالکیہ کے نزدیک سورۃ فاتحہ کی طرف نماز میں اسے بلند آواز سے پڑھنا منع ہے۔