ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری
نام: اس سورۂ پاک کا نام المطففین ہے جو اس کی پہلی آیت میں مذکور ہے۔ اس میں ایک رکوع ، چھبیس آیتیں، ایک سو انہتر کلمات اور سات سو تیس حروف ہیں۔ نزول: حضرت ابن مسعود، ضحاک اور ان کے ہم خیال لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی لیکن حضرت ابن عباس کی رائے یہ ہے کہ اس کا نزول ہجرت کے فورا بعد مدینہ طیبہ میں ہوا۔ وہاں ایک تاجر تھا۔ جس کا نام ابو جہینہ تھا ۔ اس نے دو قسم کے باٹ رکھے ہوئے تھے۔ جب کوئی جنس خریدتا تو اس کے لیے اور باٹ استعمال کرتا اور جب فروخت کرتا تو اس کے لیے دوسرے باٹ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ۔ ایک تیسرا قول بھی منقول ہے کہ اس کا نزول حالت سفر میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہوا۔مضامین: اصلاح معاشرہ کے لیے آخرت پر ایمان جو مؤثر کردار انجام دیتا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ جو لوگ روز جزا پر پختہ یقین رکھتے ہیں ان کی بظاہر نگرانی نہ بھی کی جائے تو وہ راستی اور دیانتداری کی راہ پر ثابت قدمی سے بڑھتے چلے جائیں گے کوئی لالچ اور کوئی خو ف اُنہیں جادۂ حق سے سرِ مو منحرف نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ معاشرہ جس کے افراد قیامت پر یقین نہیں رکھتے ان میں طرح طرح کی خرابیاں بڑی آسانی سے راہ پالیتی ہیں۔ تھوڑا سا خوف اور تھوڑا سا لالچ انہیں راہ راست سے بھٹکانے کے لیے کافی ہے ۔ اہل مکہ چونکہ عام طور پر تجارت پیشہ تھے اس لیے لین دین میں ڈنڈی مارنا ان کے ہاں عام مروج تھا۔ اس کی خربی صرف یہی نہیں تھی کہ دوسرے کی حق تلفی ہوتی تھی بلکہ انجام کار ایسا کرنے والے کی تجارت کا بھی ستیاناس ہوجایا کرتا تھا ۔ اس لیے کفار مکہ کو وقوع قیامت کی ضرورت اور حکمت پر غور کرنے کے لیے اس سورت میں جو دعوت دی جارہی ہے۔ اس کی ابتداء وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ سے کی اور انہیں بتایا کہ اگر وہ اس خسیس حرکت سے اپنی کاروباری سرگرمیوں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی یہی ایک صورت ہے کہ وہ قیامت پر ایمان لے آئیں۔ اس صورت میں کسی کی جرأت نہ ہوگی کہ اس بددیانتی کا ارتکاب کرے۔
اس کے بعد یہ بتایا کہ قیامت تو ہر حال میں برپا ہوگی لیکن جو لوگ اس کے برپا ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ساری عمر بدکاری اور دھوکہ بازی میں برباد کر کے آئے ۔ آج وہ اس کی سزا بھگتیں گے جو بڑی دردناک ہوگی ۔ لیکن جن لوگوں نے قیامت کے وقوع کو تسلیم کرلیا اور اس روز جزا کے مواخذہ سے ساری عمر ڈرتے رہے اور کبھی بھولے سے بھی غلط راستے پر قدم نہ رکھا ۔ قیامت کے روز ان کی ج طرح عزت افزائی کی جائے گی اس کا دلکش منظر بھی پیش کردیا ۔ آخر میں کفار کی ایک خسیس حرکت کا تذکرہ کردیا گیا ہ وہ خود ساری خرابیوں کا مجسمہ ہیں ۔ اپنی غلاظتوں کو دیکھ کر انہیں کبھی ندامت نہیں ہوئی ۔ بایں ہمہ اہل حق کو وہ بڑی حقارت آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں کنکھیوں سے اشارے کرتے ہیں۔ اللہ والوں کی تذلیل کے بعد جب گھر لوٹتے ہیں تو بڑے شاداں وفرحان گویا کوئی بڑا معرکہ سر کر کے آئے ہیں۔ خود بادیہ ضلالت میں بھٹک رہے ہیں اور گمراہی کا الزام ان پاک طینت لوگوں پر لگاتے ہیں جن پر انسانیت فخر کرتی ہے اور دین حق کو بجا طور پر ناز ہے۔ اہل لغت کہتے ہیں مطفف: طفیف سے ماخوذ ہے۔ وھو القلیل : اس کا معنی قلیل ہے ۔ مطفف کو اس لیے مطفف کہا جاتا ہے کہ وہ حق دار کو اس کا پورا حق نہیں دیتا بلکہ اس میں کمی کردیتا ہے زجاج نے اس کی اور وجہ بیان کی ہے کہ یہ پیمانہ کو جھٹک کر یا ترازو میں ڈنڈی مار کر منوں کے حساب تونہیں چراتا بلکہ تو لے چھٹانک ہی ناحق مارتا ہے اس لیے اسے مطفف کہا۔دور جاہلیت میں صر ف عقائد میں ہی بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ معاملات اور کاروبار میں بھی بددیانتی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ قرآن ِ کریم نے صرف عقیدے کی اصلاح پر ہی زور نہیں دیا بلکہ معاملات میں دیانت وامانت کی بھی تلقین کی ہے۔ اہل مکہ جن کا پیشہ ہی تجارت تھا ان کے ہاں اس قسم کی خرابیاں اپنے شباب پر تھیں ہیں۔ اس کاروباری بدیانتی سے سے باز آنے کی جب نصیحت کی تو اس کیلئے بڑا پر جلال انداز اختیار فرمایا کہ وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ الخ یعنی ایسا کرنے والوں کے لیے ہلا کت وبربادی ہے اور ان کا مقدر رنج واندوہ ہے ۔ آخرت میں تو اس کی جو سزا ملے گی وہ ملے گی، اس دنیا میں ہی اس کے برے اثرات کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دیں گے۔ جب لوگوں کو اس کی بددیانتی کا پتہ چلے گا تو کوئی گاہک اس کی دکان کا رخ نہ کرے گا اور یہ سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا رہے گا۔ انجام کار غربت وتنگدستی اس کا مقدر بن جائے گی۔ صرف وہی تاجر کامیاب ہوتا ہے جس کی دیانت داری پر لوگوں کو پورا اعتماد ہو۔ صرف اخروی کامیابی ہی نہیں، تمہاری دنیوی فلاح کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ تم یہ خسیس حرکتیں چھوڑ دو۔ قرآن کریم میں جا بجا اس فعل شنیع سے باز آنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
حضرت شعیب علیہ السلا کی قوم کی تباہی کا جہاں تذکرہ ہے وہاں بتایا گیا ہے کہ انہیں کاروباری بددیانتی کی پاداش میں برباد کردیا گیا۔
اس قسم کے جرائم کی پوری سزا تو قیامت کو ہی ملے گی، لیکن ان کے برے اثرات اس دنیا میں بھی ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور ان کی نوعیت اتنی سنگین ہوتی ہے کہ انسان کو دن میں ہی تارے نظر آنے لگتے ہیں ۔ ایک حدیث پاک سماعت فرمائیے:
قال ابن عباس قال النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) خمس بخمس ما نقض قوم العہد الا سلط اللہ علیہم عدوھم ولا حکموا بغیر ما انزل اللہ الا فشا فیھم الفقر وما ظہرت الفاحشۃ فیھم الا ظہر فیھم الطاعون وما طففوا الکیل الا منعوا النبات واخذوا بالسنی ولا منعوا الزکاۃ الا حبس اللہ عنہم المطر (قرطبی عن بزاز)
ترجمہ : حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوہ والسلام نے فرمایا ان پانچ چیزوں پر یہ پانچ سزائیں ملتی ہیں۔ جو قوم عہد شکنی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن مسلط کردیتا ہے۔ جو قوم احکام الٰہی کے خلاف فیصلہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو تنگ دست کردیتا ہے جس قوم میں بدکاری عام ہوجاتی ہے، اس میں طاعون پھیل جاتی ہے اور جو قوم اپنے ناپ تول میں کمی کرتی ہے، وہاں زرعی پیداوار میں برکت نہیں رہتی اور قحط سالی پھیل جاتی ہے ۔ جو قوم زکوٰۃ نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ ان پر بارش نازل نہیں کرتا
جب حضور علیہ الصلوہ والسلام ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگ اس عادت کا بری طرح شکار تھے جب انہوں نے یہ آیت سنی تو توبہ کی اور آج تک اہل مدینہ میں کوئی تاجر کم تولنے اور کم ناپنے کا مرتکب نہیں ہوتا۔