چاہتا ہوں کوئی امید نہ رکھوں ان سے
کاش میری یہی امید برآئی ہوتی
سیاسی اختلاف کا گرتا معیار
سیاست میںمختلف جماعتوں کے قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے ۔ یہ سیاسی جماعتوںاور ان کے قائدین کا ایک طرح سے سیاسی حق ہے ۔ اس کے ذریعہ ایک دوسرے کی خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ انہیں سیاسی اعتبار سے نیچا دکھایا جاتا ہے لیکن ہندوستان کی سیاست کا ہمیشہ سے یہ امتیاز رہا تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود نجی یا شخصی تنقیدوں سے گریز کیا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے پر جو تنقید ہوتی تھی وہ محض سیاسی ہوا کرتی تھی ۔ اس کے ذریعہ شخصی عناد یا بغض کا اظہار نہیںکیا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے کی صلاحیت کا تمام فریق اعتراف کیا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کو تسلیم کیا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی رائے کا اختلاف کے باوجود احترام کیا جاتا تھا ۔ یہ ہندوستانی سیاست کا امتیاز تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی فورمس میں ملک کے موقف کو پیش کرنے کیلئے کچھ حکومتوں نے اپوزیشن کے قائدین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اپوزیشن قائدین کویہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ بیرونی ممالک میں ہندوستان کے موقف کو موثر انداز میں پیش کریں۔ یہ ہندوستانی سیاست کا ایک طرح سے طرہ امتیاز رہا تھا ۔ تاہم حالیہ کچھ برسوںمیںیہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اختلاف کو شخصی عناد اور نفرت کے اظہار کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے پر جو تنقیدیں کی جا رہی ہیںان کا معیار گرتا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کا احترام بالکل ہی ختم کردیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا کھلے عام اظہار کرتے ہوئے کردار کشی سے بھی گریز نہیںکیا جا رہا ہے ۔ دوسروں پر تنقیدیں کرتے ہوئے در اصل کچھ قائدین اپنی ذہنی سطح کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اس معاملے میںبی جے پی اور اس کے قائدین سب سے آگے ہیں۔ وہ اپوزیشن یا مخآلفین کا وجود تک برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی مخالفین پر جو تنقیدیں ہوتی ہیں وہ انتہائی گھٹیا سطح تک پہونچ جاتی ہیں۔ انہیںملک میں اخلاقیات کو فروغ دینے کی ذمہ داری کا کوئی احساس نہیںرہتا ۔ انہیںصرف اور صرف اپنے سیاسی مفاد سے دلچسپی ہوتی ہے لیکن وہ اس مفاد کی تکمیل میںاخَاقیات اور اقدار کو فراموش کر رہے ہیں ۔
سیاسی مخالفت کے نام پر اخلاقیات اور اقدار کو پوری طرح سے پامال کیا جاچکا ہے ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ سیاسی تنقیدوں میں حق بجانب ہیں۔ یقینی طور پر ہر سیاسی جماعت کو دوسروں پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن یہ اختیار کسی کو بھی حاصل نہیںہے کہ وہ کسی کی کردار کشی پر اتر آئیں۔ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ شخصی یا انفرادی نشاندہی کے ذریعہ تنقید کو اپنا حق بنالیں۔ جہاںتک بی جے پی قائدین کا سوال ہے وہ ایک معاملہ میںخاص طور پر کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں اور وہ مسئلہ ہے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو نشانہ بنانے کا ۔ سیاسی اعتبار سے راہول گاندھی کی مخالفت کرنا یا انہیںشکست سے دوچار کرنا یقینی طور پر بی جے پی کا حق ہے ۔ اس کیلئے بی جے پی ہر طرح کی جدوجہد کرسکتی ہے ۔ اس کے کارکنوںاور قائدین کو بھی اس معاملے میں پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے معاملات کو عوام میںپیش کرتے ہوئے کانگریس یا اس کے قائدین کی پالیسیوںیا اقدامات کی مخالفت کریں لیکن کسی کو بھی یہ اختیار ہرگز نہیںدیا گیا ہے کہ وہ صرف راہول گاندھی ہی نہیں بلکہ کسی بھی سیاسی مخالف کی کردار کشی پر اتر آئیں۔ انہیںنشانہ بنانے میںاخلاقیات و اقدار کو پامال کردیا جائے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ اب پارلیمنٹ کے ایوان کا تقدس بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میںکھڑے ہو کر جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی گلی کوچے میں بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔
سیاسی قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوامی زندگی میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ سماج میںاخلاقیات اور اقدار کو فروغ دینے کا ذریعہ بنیں انہیںپامال کرنے کی وجہ نہ بنیں۔ سیاسی مخالفت کو شخصی بغض و عناد کے اظہار کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ سیاست کو محض سیاست تک محدود رکھا جائے ۔ اسے دشمنی میں تبدیل ہونے نہ دیا جائے ۔ تمام جماعتوںکے اعلی قائدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تمام قائدین اور کارکنوںکو اخلاقیات و اقدار کی برقراری کی تاکید کریں۔ انہیںیہ مشورہ دیا جائے کہ سیاست ضرور کی جائے لیکن اس میں ہندوستانی روایات کو پامال کرنے کا سلسلہ فوری ترک کردیا جائے ۔