سیدانا علی المرتضیٰ ؓکے روحانی احوال و مقام

   

پروفیسر محمد نصراللہ معینی مرسلہ : عبداللہ محمد عبداللہ

مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے؟
اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے؟اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھئے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجئے۔بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں۔ لیکن ہمارے یہ نادان بھائی اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے۔
ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔
حضور ﷺنے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کیلئے ان سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں‘‘۔(الترغيب والترهيب)
حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ …مشکل کشا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی ہے۔ صحابہ کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعثِ تکوین کائنات فخر موجودات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ.’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکا مولا ہیں‘‘۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور دعا سے انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی تھی، اسی طرح وہ بارگاہ مرتضوی رضی اللہ عنہ سے بھی رجوع کرتے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور دعا سے مشکل کشائی ہو جاتی۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت
حضرت امام یوسف النبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام فخرالدین رازی کے حوالے سے سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔٭ ایک حبشی غلام حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے؟ غلام کہنے لگا ’’یعسوب المسلمین‘‘ ختن رسول ﷺاور زوج بتول علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کاٹا ہے۔ ابن الکواء رضی اللہ عنہ نے پوچھا : انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے؟حبشی کہنے لگا میں ان کی مدح کیوں نہ کروں، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کی یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے اور جا کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔
سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے فوراً غلام کو طلب فرمایا اور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا، کچھ دعائیہ کلمات پڑھے۔ اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹادو، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا۔ (جامع کرامات اولیا ء جلد اول ص ۴۲۳)