شان صدیق اکبرؓ بزبان علی حیدرؓ

   

سید مدثر احمد

تاریخ وصال : ۲۲؍ جمادی الثانی ۱۳؁ ھ
خیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق کے اعزاز کے حامل اُمت محمدیہ کے اولین امیر و خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وہ فضائل و مناقب جسے علامہ امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں خلیفہ رابع امیر المومنین حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے نقل کئے ہیں،پیش خدمت ہیں:
آپؓ کا قبول اسلام: ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓاسلام لائے۔
حضرت ابوبکرؓ کی شجاعت: البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے لوگوں سے دریافت کیا بتائو کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ آپؓ سب سے زیادہ بہادر ہیں، آپؓ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوںپھر میں سب سے زیادہ بہادر کیسے ہوا؟ تم یہ بتائو کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟لوگوں نے کہا ہم نہیں جانتے آپؓ خود ہی فرمائیں،تب آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ بہادر و شجاع حضرت ابوبکر ؓہیں، سنو! جنگ بدر میں ہم نے رسول اللہ ﷺکیلئے ایک سائبان بنایا تھا، ہم نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا کہ اب اس سائبان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نگرانی کیلئے کون ہوگا؟ اللہ کی قسم ہم میں سے کسی کو ہمت نہ ہوئی اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ شمشیر برہنہ ہاتھ میںلئے رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپؓ کے پاس آنے کی جرات نہ ہوئی، اگر کسی نے جرات کی تو آپؓ فوری طور پر اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کردیا، اس لئے آپؓ ہی سب سے زیادہ بہادر تھے۔اسی سلسلے میں اور ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہیکہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺکو اپنے نرغے میں لے لیا اور وہ آپ کے ساتھ ناروا سلوک کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم ہی ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے، بخدا کسی کو ان مشرکین سے مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی لیکن ابوبکرؓ آگے بڑھے اور مشرکین کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے کہ افسوس ہو تم پر کہ تم ایسے شخص کو ایذا پہونچا رہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف ایک اللہ ہی ہے۔یہ کہتے ہوئے حضرت علیؓ نے اپنی چادر منہ پر رکھی اور اتنا روئے کہ آپؓ کی داڑھی تر ہو گئی، پھر آپؓ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں ہدایت دے، اے لوگو!یہ بتائو کہ مومن آل فرعون اچھے تھے کہ ابوبکرؓ اچھے ہیں؟ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو آپؓ نے فرمایاکہ لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے؟ خدا کی قسم ابوبکرؓ کی ایک ساعت مومن آل فرعون کے ہزار ساعتوں سے بہتر و برتر ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے اور ابوبکرؓ نے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا۔ابن عساکرحضرت علی ؓسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو ظاہر فرمایا اور لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔
تمام صحابہؓ میں آپؓ ہی افضل ہیں: محمدؒ بن علیؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے والد محترم سے دریافت کیا کہ لوگوں میں رسول اللہ ﷺکے بعد کون افضل ہے؟ آپؓ نے فرمایا : ابوبکرؓ، میں نے کہا پھر؟ آپؓ نے کہا: عمرؓ،اس کے بعد مجھے خوف ہوا کہ آپؓ حضرت عثمانؓ کا نام لیں گے مگر عرض کی پھر اس کے بعد آپؓ افضل ہیں، تو آپؓ نے فرمایاکہ میری کیا ہستی ہے ، میں تو مسلمانوں میں کا ایک فرد ہوں۔احمد ابن حنبلؒ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺکے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ خیر امت ہیں۔امام ذہبیؒ کہتے ہیں یہ فرمان حضرت علیؓ سے متعدد مرتبہ منقول ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایاکہ جو کوئی مجھے ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ پرفضیلت دے گا،میں اس پر اسّی کوڑے تہمت کی حد جاری کروں گا۔ ترمذی نے حضرت انسؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں جنت میںانبیا و مرسلین کے علاوہ تمام اولین و آخرین کے سردار ہوں گے۔حضرت علیؓ و دیگر سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ابن عساکرنے نقل کیا حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺنے ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تو میں بھی بثبات ہوش و حواس وہاں شریک تھا، چنانچہ ہم ان سے دنیاوی معاملات میں بھی راضی ہوگئے، جس طرح رسول اللہ ﷺ دین کے معاملے میں ان سے راضی تھے۔ (تاریخ الخلفاء ) 

حضرت ابوبکر کی شان میں نازل شدہ آیت کی تفسیر: بزار اور ابن عساکر نے اسید بن صفوان سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں میں اس محفل میں تھا کہ حضرت علیؓ نے یوں قسم کھائی کہ قسم ہے اس خدا کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور ابوبکرؓ سے اس رسالت کی تصدیق کرائی، تو یہ آیت نازل ہوئی: والذی جاء بالصدق و صدق بہ اولئک ھم المتقون۔
آپؓ کی شان میں وارد حدیث شریف : ابن عساکر نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا اور دارالھجرت یعنی مدینہ تک پہنچایا و نیز بلالؓ کو آزاد کروایا۔ خدا عمرؓ پر بھی رحم فرمائے کہ وہ حق کہنے میں کبھی نہیں چوکتے اگرچہ کتنی ہی سخت و کڑی بات ہو۔خداوند کریم عثمان پر بھی رحم فرمائے کہ وہ اتنے حیادار ہیں کہ ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اے اللہ علیؓ پر رحم فرما، جہاں علیؓ ہوں وہاں حق کو علیؓ کے ساتھ رکھ۔
حضرت ابوبکرؓ کی شان میں مولا علیؓکی ذاتی رائے: ابن عساکر نے حضرت علیؓ سے بیان کیا ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس سے گزرا وہ صرف ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے تھے ، ان کی یہ حالت دیکھ کر میری زبان سے بے ساختہ نکل گیاکہ کوئی نامۂ اعمال والا جو اللہ سے ملاقات کرے گا میرے نزدیک وہ اس کپڑا اوڑھے ہوئے شخص سے زیادہ محبوب نہیں۔
طبرانی نے اوسط میں بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابوبکرؓ ہی سبقت لے گئے۔
اوسط ہی میں طبرانی نے جحیفہ سے بیان کیاہے ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکرؓ اورعمرؓ سب سے افضل ہیں، کسی مومن کے دل میں میری محبت اور ابوبکرؓ و عمرؓ کا بغض کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔
ابوبکرؓ کی خلافت و امامت: بخاری و مسلم حضرت ابو موسی اشعریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہوئی تو آپؓ نے فرمایا: لوگو! ابوبکرؓ کے پاس جائوتاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائیں، یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے والد بہت نرم دل ہیں وہ جب مصلے پر کھڑے ہونگے تو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔آپؓ نے فرمایا: ابوبکرؓ سے کہنا کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت عائشہؓ نے دوبارہ عرض کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جائو اور ابوبکرؓ سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پھر فرمایا یہ عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسی عورتیں ہیں،اس کے بعدابوبکر صدیقؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے(یا بلایا گیا)پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات لوگوں کو نماز پڑھائی۔یہ حدیث متواتر ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا۔
دارقطنی نے افراد میں ،خطیب اور ابن عساکر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، آپؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اللہ کی بارگاہ میں تین دفعہ استدعا کی کہ تمہیں امام بنائوں مگر وہاں سے انکار ہوا اور ابوبکرؓ ہی کو امامت کا حکم ہوا ہے۔
آپؓ کی خلافت و امامت سے حضرت علیؓ کو کوئی اعتراض نہ تھا: حاکم نے اپنی مستدرک اور ذہبی نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ ابو سفیانؓ ابن حرب ایک روز حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے قریش کے ایک عام آدمی سے بیعت کرلی،اگر آپؓ چاہیں تو یہ خلافت آپ کو بآسانی حاصل ہوجاتی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : اے ابو سفیانؓ! تم نے زمانہ دراز تک اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کی تو کیا بگاڑلیا، مجھے تو ابوبکرؓ کی خلافت میں کوئی ؟ حرج نہیں معلوم ہوتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اس کے اہل ہیں۔
ابن سعد،حاکم اور بیہقی نے ابوسعید خدری سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو لوگ سعد بن عبادہ کے مکان پر جمع ہوئے ،ان میں ابوبکرؓ و عمرؓ بھی تھے، سب سے پہلے ایک انصاری کھڑے ہوئے اور اس طرح خطاب کیا کہ اے مہاجرین! تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تم میں سے کسی کو کہیں کا عامل مقرر کرتے تو ہم میں سے کسی شخص کو اس کے ساتھ کر دیتے تھے، لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ایک امیر تم میں مقرر ہو اور ایک امیر ہم میں۔ چند انصار نے بھی اسی طرح مخاطب کیا۔ ان کے بعد زیدؓ بن ثابت نے کھڑے ہو کرفرمایا: لوگو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ مہاجرین میں سے تھے، لہٰذا اب خلیفہ بھی مہاجرین سے ہونگے، اور جس طرح ہم رسول اللہ کے انصار تھے اسی طرح اب اس خلیفہ کے انصار رہیں گے۔ یہ کہکر آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا پکڑا اور فرمایا اب یہ تمہارے والی ہیں ، یہ کہتے ہوئے زیدؓ بن ثابت نے آپ سے بیعت کی، ان کے بعد حضرت عمرؓ نے ، ان کے بعد تمام مہاجرین نے ، پھر انصار نے آپ سے بیعت کی۔ بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ منبر پر تشریف لے گئے اور حاضرین پر نظر ڈالی جب مجمع میںزبیرؓ کو نہ پایا تو آپ نے انہیں طلب فرمایا، حضرت زبیرؓ پہونچے تو آپؓ ان سے فرمایا: اے زبیرؓ! باوجود اس کے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کے بیٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری ہوکیا تم مسلمانوں کی کمر توڑنا چاہتے ہو؟یہ سنکر وہ کہنے لگے کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ فکر نہ کریں،پھر آپؓ کھڑے ہوئے اور بیعت کرلی۔حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ مجمع پر نظر ڈالی جب حضرت علیؓ کو موجود نہ پایا تو فرمایا: علیؓ بھی نہیں ہیں انہیں بلا لائو۔ جب حضرت علیؓ تشریف لائے تو فرمانے لگے ، اے ابن ابی طالب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد اور ان کے داماد ہوکر اسلام کو کمزور کرنا چاہتے ہو؟حضرت علیؓ نے بھی زبیر کی طرح فرمایاکہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ فکر نہ کریں اور بیعت کرلی۔
موسی بن عقبہ نے اپنے مغازی میں اور حاکم نے عبدالرحمن ابن عوفؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے یہ خطاب کیا “واللہ مجھے دن رات میں کبھی امارت کا شوق نہ ہوااور نہ میں نے کبھی اس کی حرص کی، نہی میں نے پروردگار سے ظاہر وباطن میں دعا مانگی ، اصل یہ ہیکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں فتنہ برپا نہوجائے، میرے لئے خلافت میں کوئی راحت و سکون نہیں ،ایک بڑی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی مجھ ناتواں پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا، بتائید ایزدی اس امر دشوار کو انجام تک پہونچائوں گا، مجھے اللہ کی طاقت وقوت پر پورا پورا بھروسہ ہے”۔ یہ سن کر حضرت علیؓاور حضرت زبیرؓنے کہا کہ ہمیں بڑی ندامت ہے کہ ہم مشورہ خلافت میں کیوں شریک نہ تھے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ ہی تمام لوگوں میں خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، کیونکہ آپ رسول اللہ ﷺکے یار غار ہیں، ہمیں آپ کا فضل و مقام معلوم ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے آپ کو اپنی حیات طیبہ میں امامت کا حکم ارشاد فرمایا۔
حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ کی بڑی فکر تھی: دارقطنہ نے ابن عمرؓ سے روایت کی کہ جس وقت حضرت ابوبکرؓ جہاد کے ارادے سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے تو حضرت علیؓ نے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اورکہا: اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے وہی کہنا چاہوں گا جو جو رسول اللہﷺنے آپ سے فرمایا تھا کہ ” آپ اپنی تلوار میان میں کر لیجئے ، آپ خود کو کسی ناگہانی بلا میں نہ پھنسائیے اور مدینہ واپس لوٹ چلیں، خدانخواستہ اگر آپ کو کچھ ہوتا ہے تو اسلام بھی باقی نہ رہے گا۔
سب سے زیادہ ثواب ابوبکرؓ کو ملے گا: ابو یعلی حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیںکہ قرآن شریف کے سلسلے میں سب سے زیادہ ثواب حضرت ابوبکرؓ کو ملے گا کہ سب سے پہلے آپ ہی نے اسے کتابی صورت میں جمع کیا۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں کوئی رنجش نہ تھی: ابو نعیم وغیرہ نے عبد الرحمن اصبہانی سے روایت کی ہے کہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیقؓ منبر پر تشریف فرما تھے، اتنے میں امام حسنؓ (جو ابھی صغر سنی میں تھے) آگئے اور کہنے لگے ’’میرے بابا جان کے منبر پر سے اترئیے‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو یہ منبر تمہارے والد بزرگوار ہی کا ہے۔ یہ کہکر آپؓ نے انہیں اپنے گود میں بٹھا لیا اور اشکبار ہوگئے۔حضرت علی ؓ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے ان سے کچھ نہیں کہاتھا، آپؓ نے فرمایا: نہیں آپ سچ کہتے ہیں، میں آپ پر تہمت نہیں لگاتا۔
حضرت عمر ؓ کو خلیفہ نامزد کرنے پر حضرت علیؓ کا اتفاق:ابن عساکر نے یسار بن حمزہ سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے سخت علالت میں کھڑکی سے جھانک کر دیکھا اور لوگوں سے مخاطب ہوئے ، اے لوگو! میں نے تمہارے لئے ایک شخص کو ( خلیفہ) مقرر کردیا ہے، کیا تم اس انتخاب سے راضی ہو؟لوگوں نے متفقہ طور پر کہا اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بالکل راضی ہیں ۔ حضرت علی ؓ نے کھڑے ہوکر فرمایا: اگر وہ شخص عمرؓ نہیں تو ہم راضی نہیں، تو آپ نے جواب فرمایا کہ بیشک وہ عمرؓ ہی ہیں۔
ان تمام روایات و اقوال سے حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ افرادِ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قابلِ تقلید ہے۔