شاہِ دکن حضرت خواجہ حبیب علی شاہؒ

   

ڈاکٹر محی الدین حبیبی
حضرت خواجہ حبیب علی شاہ ۲۰ جمادی الثانی ۱۲۳۶؁ ہجری کو بوقت چاشت چمن زارِ ہستی میں جلوہ افروز ہوئے ۔ آپؒ کا سلسلہ جدی حضرت عبدالغفور قادری (گجرات) سے چوتھی پُشت میں ملتا ہے جو سمرقند سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ آپؒ کے فرزند ارجمند شاہ عبدالقادر ( المعروف حکیم قادر یار خاں) کو آصف جاہ ثانی نظام علی خاں نے شاہی طبیب مقرر فرماکر محی الدولہ اول کا خطاب عطا کیا جو حضرت کے جداعلیٰ تھے ۔ حضرت خواجہ حبیبؒ کے والد بزرگوار نواب احمد یار خاں محی الدولہ رابع تھے جو حضرت عزت یار خاں محی الدولہ ثالث کے جانشین تھے ۔ حضرت عزت یار خاں ؒنہ صرف حکیم حاذق تھے بلکہ مشہور واعظ بھی تھے جن سے حضرت شجاع الدین صاحب قبلہؒ جیسی عالمانہ ہستی بھی فیض یاب ہوتی تھی ۔ حضرت خواجہ حبیبؒ قلیل عرصہ میں حافظ قرآن ہوئے ۔ آپؒ جب سولہ سال کے ہوئے تو حضرت حافظ سید محمد علی شاہ خیرآبادیؒ سے بیعت فرمائی ۔خواجہ حبیبؒ نے اپنے مرشد کی خدمت میں کوئی (۲۰) سال سے زیادہ عرصہ گذارا اور باطنی علوم و کیفیات سے سرفراز ہوئے تو انھیں کوکن ، بمبئی ، گجرات اور کاٹھیاواڑ میں سلسلۂ چشتیہ کو پھیلانے کا کام سپرد کیا گیا ۔ آپؒ نے بے شمار صوفیانہ تحریریں چھوڑی ہیں اور آپؒ کے صوفیانہ شاعری کے تین دیوان شائع ہوئے ۔ آپؒ کی تعلیم میں ریاضت و مجاہدات پر کافی زور دیا گیا ہے اور محبت الٰہی و عشق رسولؐ اور محبت شیخ سے ’’عشق ‘‘ کی انتہا تک پہنچنے کی رغبت دلاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت حافظ علی شاہ خیرآبادیؒ کے تین خلفاء کافی مشہور ہوئے ایک خواجہ حبیب علی شاہؒ جنھیں ’’عشق‘‘ کی دولت ملی ۔ حضرت سردار بیگ صاحب قبلہ ’’توحید ‘‘ کے اسیر ہوئے تو حضرت حسن الزماں صاحب قبلہؓ کو ’’علم ‘‘ ملا کہ آپ نے (۱۷) جلدوں میں تفسیر قرآن تحریر فرمائی ۔ خواجہ حبیب ؒ کو اپنے شیخ سے وہی نسبت تھی جس طرح حضرت امیر خسروؔ کو حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی سے تھی ۔ آپؒ کا وصال ۶ ذی الحجہ ۱۳۲۳؁ھ کو بمبئی میں ہوا لیکن ۱۰ ذی الحجہ کو عین عیدالاضحیٰ کے دن حیدرآباد (کٹل منڈی ) میں سُپرد خاک ہوئے۔ آپ کا اس سال ۱۲۱واں عرس منایا جائے گا۔