غمِ حیات و غمِ روزگار کی تلخی
یہ وارداتیں جہاں ہیں تخیلات نہیں
ٹاملناڈو میں برسر اقتدار اور اپوزیشن انڈیا اتحاد میں شامل ڈی ایم کے کے رکن پارلیمنٹ دیاندھی مارن کے ریمارکس پر تنازعہ پیدا ہوگیا ہے ۔ مسٹر مارن نے ہندی اور انگریزی تعلیم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہار میں صرف ہندی کی تعلیم حاصل کرنے والے مزدور صرف مکان تعمیر کرسکتے ہیں یا پھر ٹاملناڈو میں بیت الخلا ء کی صفائی کرتے ہیں۔ انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ انگریزی میں اعلی تعلیم کرتے ہیں وہ انگریزی کی وجہ سے ہی آئی ٹی کمپنیوں میں ملازمتیں پاتے ہیں اور بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں۔ انہوں نے شمالی ہند کے ہندی بولنے والے مزدوروں خاص طور پر بہار سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے تعلق سے کہا کہ وہ ٹاملناڈو میں مزدوری کرتے ہیں یا پھر بیت الخلاء صاف کرتے ہیں۔ یہ ریمارکس کسی بھی ذمہ داری عوامی نمائندے کیلئے انتہائی نازیبا اور نامناسب ہیں ۔ یہ درست ہے کہ بہار اور اترپردیش سے تعلق رکھنے والے مزدور ملک کی تقریبا تمام ریاستوں میں پائے جاتے ہیں اور وہاں اپنے لئے روزگار اور ملازمتیں حاصل کرتے ہیں ۔ یہ لوگ دوسری ریاستوں میں پہونچ کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ مزدور ہیں جو ملک کی کئی ریاستوں میں ترقیاتی کاموں اور تعمیراتی کاموں میں محنت کرتے ہیں۔ ان ہی کی مرہون منت ہے دوسری ریاستوں میں تعمیراتی کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہتے ہیں۔ خود جنوبی ریاستوں میں مزدور ی کرنے والوں کی شرح کم پائی جاتی ہے اور خاص طور پر مشقت والے کام کرنے میں جنوبی ریاستوں کے عوام کچھ پیچھے رہتے ہیں۔ شمالی ریاستوں اور خاص طور پر بہار سے تعلق رکھنے والے عوام ایسے کاموں میں آگے رہتے ہیں اور یہ ان کی صلاحیت ہے ۔ یہ لوگ اگر دوسری ریاستوں میں اپنی خدمات فراہم نہ کریں تو کئی ریاستوں میں تعمیراتی اور دوسری سرگرمیاں ٹھپ ہوسکتی ہیں یا کم از کم ماند پڑسکتی ہیں ۔ جہاں تک ڈی ایم کے کے رکن پارلیمنٹ کا ریمارک ہے انہیں اس کی سنگینی کا شائد احساس نہیں ہے لیکن انہوں نے نازیبا ریمارک کیا ہے ۔
دیاندھی مارن کے ریمارکس پر تنازعہ پیدا ہوا ہے ۔ کئی جماعتوں کے قائدین اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ بہار کے ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو ‘ مرکزی وزیر و بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے بھی دیاندھی مارن کے ریمارکس کی مذمت کی ہے ۔ یہ ریمارکس واقعی قابل مذمت ہیں ۔ کسی کو اس کے کام کاج کی وجہ سے نیچا دکھانے کا کسی کو بھی اختیار یا حق حاصل نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس طرح کے ریمارکس کے جو سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ڈی ایم کے اور بہار کی جماعتیں جے ڈی یو اور آر جے ڈی دونوں ہی اپوزیشن کے انڈیا اتحاد میں شامل ہیں۔ اگر ڈی ایم کے اس طرح کے ریمارکس کرتی ہے یا اس کے رکن پارلیمنٹ ایسا بیان دیتے ہیں تو بہار کی جماعتوں کا شدید رد عمل فطری بات ہے ۔ اس طرح سے ایک اتحاد کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بی جے پی اس طرح کے بیانات اور ریمارکس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور بی جے پی ایسی کوشش شروع بھی کرچکی ہے ۔ یہ ریمارکس غیر شائستہ اور نازیبا ہیں ۔ ڈی ایم کے اور اس کے رکن پارلیمنٹ دیاندھی مارن کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے ریمارکس سے نہ صرف گریز کریں بلکہ دیاندھی مارن کو اس پر معذرت خواہی بھی کرنی چاہئے ۔ اس طرح کے بیانات اور ریمارکس کے سیاسی اثرات کا تو دھیان رکھنا ہی چاہئے تاہم انسانی حقوق کے پہلووں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے ۔
اس طرح کے ریمارکس چاہے برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والے قائدین کریں یا پھر اپوزیشن کے قائدین کریں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ سارا ہندوستان ایک ہے ۔ ہر ریاست میں دوسری ریاستوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ملک کا دستور اور قانون انہیں اس طرح کے حقوق فراہم کرتا ہے ۔ ایک سے دوسری ریاست کو نقل مکانی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی روزگار کی تلاش میں نکلنے اور محنت مزدوری کرنے کی کوئی ممانعت ہے ۔ ایسے میں تمام جماعتوں کو اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور علاقائی جذبات کو بھڑکانے یا ان کا استحصال کرنے سے بھی گریز کیا جانی چاہئے ۔