شہریت ترمیمی بل

   

ہندوستان میں اب کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ موجودہ حکومت اپنے مقاصد کو بروے کار لانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ شہریت بل کو لوک سبھا میں منظور کرانے والی حکومت شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی اپنی خفیہ پالیسیوں کو لوک سبھا کی مہر ثبت کرنے میں کامیاب ہورہی ہے ۔ کانگریس اور ترنمول کانگریس کے بشمول مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود مودی حکومت نے بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے 6 اقلیتی گروپس کی نقل مکانی کو اہل قرار دے کر انہیں ہندوستان میں قیام پر شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس فیصلہ سے آسام اور دیگر ریاستوں میں مقیم مسلم تارکین وطن کے ساتھ امتیاز برتاجائے گا ۔ یہ شہریت ترمیمی بل کی منظوری افسوسناک کارروائی ہے ۔ حکومت نے ہندوستان میں مقیم پڑوسی ملکوں کے تارکین وطن خاص کر مسلمانوں کو شہریت دینے سے بادی النظر میں انکار کردیا ہے ۔ اس شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ صرف اہل ہندوؤں ، سکھوں ، بدھسٹوں ، جین ، پارسیوں اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی جو پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے فرار ہو کر ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں ۔ اگر یہ بل راجیہ سبھا میں بھی منظور ہوجائے تو شمال مشرقی ریاستوں خاص کر آسام میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے ۔ بشرطیکہ ان علاقوں میں مقیم تارکین وطن کو ان کے حقوق کی جانب توجہ دلانے والی تنظیمیں سرگرم ہوجائیں ، حکومت نے شہریت ترمیمی بل کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی مشترکہ کمیٹی سے رجوع کرنے اور اس پر اتفاق رائے وضع کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس کمیٹی نے تمام مقامات کا دورہ نہیں کیا ۔ اس سے یہ بل مکمل نہیں کہلاتا ۔ شہریت ترمیمی بل کے تحت جن اقلیتوں کا احاطہ کیا گیا ہے اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا اور یہ امتیازی سلوک اس حکومت کی تعصب پسندی اور معاندانہ پالیسیوں کو عیاں کرتی ہے ۔ مودی حکومت اب اپنی بقا کے لیے ووٹ بینک کی بدترین پالیسی پرگامزن ہے جس کی ملک کے ہر گوشے سے مخالفت کرنے کی ضرورت ظاہر کی جارہی ہے ۔ بی جے پی اپنی خفیہ پالیسیوں کے لیے بدنام تھی اب اس نے علی اعلان اپنے ناپاک ارادہ کو قانونی شکل دینے کا عمل شروع کردیا ہے ۔

ملک کے دیگر ریاستوں جیسے آسام ، میزورم اور میگھالیہ کے مسائل کو نظر انداز کرنا خاص کر میگھالیہ اور میزورم حکومتوں کی جانب سے اس بل کی مخالفت کو خاطر میں نہ لانا یکطرفہ کارروائی کی تعریف میں آتا ہے ۔ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں ملک کے ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور متوازن پالیسی کے ذریعہ انصاف کرے ۔ حکومت ہند ہونے کے ناطے یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر ریاست اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کرے ۔ بی جے پی کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے یکا و تنہا ہونے کا بھی احساس نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ کسی کی مخالفت کو خاطر میں لانا نہیں چاہتی ۔ آسام میں بی جے پی کی حلیف آسام گناپریشد نے زعفرانی پارٹی سے علحدگی اختیار کرلی جب کہ این ڈی اے کی حلیف پارٹی شیوسینا اور جنتادل یو نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ہے ۔ اپنی حلیف پارٹیوں کو بھی اہمیت نہ دینے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں ان پارٹیوں کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتی ۔ غیر دستوری ، غیر جمہوری اور غیر اصولی اقدامات کو ہی اپنا مقصد بنالینے والی بی جے پی کے لیے ہندوستانی عوام کے ساتھ امتیاز سے کام لینا اور ان کے دستوری حقوق کو سلب کرنے سے دلچسپی ہے ۔ اس کی نادانیوں کا خمیازہ آگے چل کر ہندوستانی عوام کو مختلف مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑے گا ۔ بنگلہ دیش یا کسی اور ملک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی ہندو تارکین وطن کو شہریت ملتی ہے تو یہ آسام معاہدہ 1985 کی خلاف ورزی بھی ہوگی ۔ غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ حساس نوعیت کا ہے ۔ جہاں قبائلی اور دیگر نسلی طبقات خارجی افراد کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں ۔ بی جے پی سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر اس نے ایک طرفہ بل سے مسلمانوں کو دور کیوں رکھا اور دوسری طرف عیسائیوں کو بل میں شامل کیوں کیا گیا ۔ جب کہ مسلمان بھی تقسیم ہند کے بعد سے حکومتوں کی معاندانہ پالیسیوں کا شکار ہوتے آرہے ہیں ۔