قاری محمد مبشر احمد رضوی قادری
٭ اسم گرامی : محمد انوار اللہ۔ کنیت : ابو البرکات۔٭ شاہی خطابات: فضیلت جنگ، خان بہادر۔ ٭القابات : شیخ الاسلام ،عارف باللہ۔ ٭ والد گرامی کا اسم گرامی: قاضی ابو محمد شجاع الدین۔٭ دادا کا اسم گرامی: قاضی سراج الدین فاروقی۔ ٭ نانا کا اسم گرامی: قاضی محمد سعد اللہ۔ ٭ سلسلہ نسب : انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ ٭ ولادت باسعادت: ۴ ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ بمقام قندھار ضلع ناندیڑ۔ ٭حلیہ مبارک: رنگ ہلکا سرخ وسفید ، چہرہ کتابی، آنکھیں بڑی بڑی ، سینہ کشادہ، قد بالا اور داڑھی گھنی تھی۔ ٭ ابتدائی تعلیم: آپ کے والد قاضی ابو محمد شجاع الدین ؒکے پاس حاصل فرمائی۔٭ اساتذہ کرام: حضرت ابو محمد شجاع الدین ، حضرت مولانا فیاض الدین اورنگ آبادی ، حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی ، شیخ عبد اللہ یمنی ( رحمہم اللہ ) وغیرہ ۔ ٭ تاسیس جامعہ نظامیہ: دو شنبہ ۱۹ ذو الحجہ ۱۲۹۲ھ ۔٭ عقدسعید : ۱۲۸۶ ھ میں مولانا حاجی محمد امیر الدین کی شہزادی انور بی سے ہوئی۔ ٭ اولاد: دوشہزادے ، تین شہزادیاں۔ ٭ رشحات قلم: انوار احمدی ، مقاصد الاسلام (گیارہ حصے) حقیقہ الفقہ( دو حصے) افادۃالافہام (دو حصے) انوار التمجید فی ادلۃ التوحید ، شمیم الانوار، کتاب العقل ، وحدۃ الوجو د وغیرہ۔ ٭ باقیات صالحات: جامعہ نظامیہ ، مجلس اشاعۃ العلوم ، دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف، دائرۃ المعارف العثمانیہ، کتب خانہ آصفیہ وغیرہ۔ ٭ چند مشہورتلامذہ : مفتی سید شاہ احمد علی صوفی قادری، محدث دکن سید عبد اللہ شاہ نقشبندی، ابو الوفا الافغانی ، آصف جاہ سادس میرمحبوب علی خان ، آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان وغیرہ ( رحمہم اللہ ) ٭ وفات حسرت آیات: غرۂ جمادی الثانی ۱۳۳۶ ھ۔ ٭ نمازجنازہ : تاریخی مکہ مسجد ( حیدرآباد) میں پڑھائی گئی۔٭ تدفین: ازہر ہند جامعہ نظامیہ کے وسیع وعریض صحن میں ہوئی۔
امام العارفین‘ حضرت سیداحمدکبیر رفاعی ؒ
آپ کا نام نامی اسم گرامی سید احمد کبیر‘ ابو العباس کنّیت اور محی الدین لقب ہے۔ آپ کے اجداد میں ایک صاحب کا نام رفاعی تھا۔ اُن کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے رفاعی مشہور ہوئے۔آپ مسلکاً شافعی اور نسباً حسینی ہیں۔ ولادتِ باسعادت: آپ کی پیدائش ۱۵ ؍ رجب المرجب : ۵۱۲ ھ کو مقام’’ حسن‘ ‘ میں ہوئی جو عراق میں ’’اُمّ عبیدہ‘‘ کے قریب شہر ’’واسطہ‘‘ کے علاقہ میں واقع ہے۔ آپ کے والدِ محترم کا نام حضرت سید علی ؓ ہے۔ آپ کے عالمِ وجود میں آنے سے قبل سرکار دوعالم ﷺ نے آپ کے ماموں حضرت منصور بطاحی ؒ کو آپ کے پیدا ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اُس لڑکے کا نام ’’احمد‘‘ رکھنا۔ اولیائے کرام میں وہ سردار ہوگا ۔صاحبِ قلائد الجواہر نے لکھا ہے کہ آپ بڑی شان کے بزرگ گذرے ہیں۔آپ کا مقام بہت بلند اور آپ کے احوال بہت مشہور ہیں۔منقول ہے کہ آپ اُن چار بزرگوںمیں سے ہیںجو بحکم ِالٰہی ‘ اندھوںکوآنکھ ‘ کوڑیوں کو تندرست اورمُردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ ممالک اسلامیہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں آپ کی خانقاہ موجود نہ ہو۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو ارفع و اعلیٰ اور برتر و بالا سمجھو ۔ آپ ہی خالق و مخلوق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہیںاور آپ اللہ تعالیٰ کے بندہ ٔ خاص ‘ رسولِ معظم‘مخلوقِ الٰہی میں سب سے زیادہ کامل و اکمل اور ہادیٔ برحق ہیں۔ آپ ہی بارگاہِ رحمانیہ کا دروازہ اوردربارِ صمدیت میں سب کا وسیلہ ہیں۔ جو آپ سے مل گیا وہ اللہ سے مل گیا‘ جو آپ سے جدا ہوا وہ اللہ سے جدا ہوا۔حضور انور ﷺ کا ارشادِ اقدس ہے کہ کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا‘ جب تک کہ اُسکی کوئی خواہش اُس شریعت کے تابع نہ ہو‘ جسکو میں لیکر آیا ہوں۔آپ کے عقیدہ سے یہ واضح ہوگیا کہ اہلسنت و جماعت حق پر ہیں۔امام العارفین‘ سید العاشقین‘ حضرت سید احمد کبیر رفاعی ؒ ۶۶سال تک اس دارِ فانی میں رہکر مخلوقِ خدا وندی کی رشدو ہدایت کا کام سر انجام دینے کے بعد کلمۂ شہادت کا ورد کرتے ہوئے ۲۲؍ جمادی الاولیٰ‘ ۵۷۸ھ‘ بروز جمعرات بہ وقت ظہر آپ نے اس دارِ فانی سے عالم ِ بقا کا سفر اختیار کیا۔