شیوراج سنگھ چوہان بھی حاشیہ پر ؟

   

موج و طوفاں و تلاطم کی نگہبانی میں
اپنی ٹوٹی ہوئی کشتی مجھے لے جانی ہے
شیوراج سنگھ چوہان بھی حاشیہ پر ؟
ملک کی ہندی بولنے والی ریاست مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کیلئے ایک چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ بی جے پی کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کئی قائدین یکے بعد دیگرے بی جے پی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں وہ کئی قائدین شامل ہیں جنہوں نے جیوتر آدتیہ سندھیا کے ساتھ کانگریس کو چھوڑ دیا تھا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ ابتداء سے بی جے پی میں رہنے والے سینئر قائدین بھی جیوتر آدتیہ سندھیا کی وجہ سے پارٹی میں مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے تھے اور اب وہ بھی کانگریس میں پناہ حاصل کر رہے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی کی طویل عرصہ سے حکمرانی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جاریہ معیاد اس نے عوامی رائے کے خلاف چور اور پچھلے دروازے سے کانگریس میں انحراف کرواتے ہوئے حاصل کی تھی ۔ مدھیہ پردیش میں جو حالات دکھائی دے رہے ہیں ان میں کانگریس پارٹی پوری طرح سے عوامی تائید حاصل کرتی نظر آر ہی ہے اور بی جے پی کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ ریاست میں کئی سینئر قائدین کو یہ شکایت رہی تھی کہ بی جے پی کے سب سے زیادہ طویل عرصہ تک خدمت انجام دینے والے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان انہیں خاطر میں نہیں لاتے ۔ بی جے پی کے مرکزی قائدین خاص طور پر و زیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو بھی شائد یہی احساس ہونے لگا ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان پر اب مزید انحصار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں بھی حاشیہ پر کردینا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مدھیہ پردیش کیلئے بی جے پی نے اپنے امیدواروں کی دو فہرستیں جاری کی ہیں اور ان میں کہیں بھی شیوراج سنگھ چوہان کا نام شامل نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے سات ارکان لوک سبھا کو بھی اسمبلی کیلئے میدان میں اتار دیا ہے ان میں تین تو مرکزی وزراء بھی ہیں۔ اس سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ بی جے پی اب صرف چوہان پر انحصار نہیں کرے گی بلکہ دوسرے قائدین کو بھی میدان میں لاتے ہوئے امکانات کو وسعت دے گی ۔
کرناٹک میں بی جے پی کو جس طرح سے شکست ہوئی تھی اس کے بعد آر ایس ایس نے یہ واضح کیا تھا کہ بی جے پی نے مقامی سطح پر کوئی قیادت مستحکم ہونے کا موقع نہیں دیا اور صرف وزیر اعظم کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اس وجہ سے اسے شکست کھانی پڑی تھی ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے کئی وزراء نے بھی ہار کا منہ دیکھا تھا ۔ اب جبکہ مدھیہ پردیش میں بھی تقریبا وہی صورتحال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو میدان میں اتارتے ہوئے ہزیمت اور سبکی سے بچنا چاہتی ہے ۔ تاہم اس معاملے میں یہ بات ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ ریاستی اور مقامی سطح پر کوئی قیادت نہیں رکھی جائے گی اور بی جے پی کیلئے انتخابی مہم کا مرکز یہاں بھی وزیر اعظم مودی ہی رہیں گے ۔ حالانکہ ریاستی سطح پر شیوراج سنگھ چوہان ایک بڑا چہرہ ضرور رہے ہیں لیکن اب شائد بی جے پی انہیں حاشیہ پر کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ دو فہرستوں میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے اور سینئر قائدین کا کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور مرکزی وزراء کو اسمبلی کیلئے میدان میں اتارتے ہوئے بی جے پی وزارت اعلی کیلئے زیادہ امکانات برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ یہ بیان شیوراج کو حاشیہ پر کرنے کے اندیشوں کی تردید سے زیادہ توثیق ثابت ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہندی بولنے والی ریاستوں میں پارٹی کسی کو وزارت اعلی امیدوار کے طور پر پیش نہیں کرے گی ۔ اس طرح بی جے پی ریاستی قیادت کو ابھارنے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتی ۔
آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی ریاستی قائدین پر انحصار کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اور ان میں پہلا نمبر شیوراج سنگھ چوہان کا لگ گیا ہے ۔ وہ مدھیہ پردیش میں پارٹی کو مسلسل استحکام بخشنے والے قائدین میں شامل تھے لیکن اب جب وہاں ہوا بدلنے لگی ہے اور عوامی رائے میں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے تو بی جے پی اسمبلی انتخابات سے زیادہ پارلیمانی انتخابات میں نقصان سے بچنا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریاستی قیادت کو نظر انداز کرتے ہوئے سارا دار و مدار وزیر اعظم مودی کی شخصیت پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سے پارٹی کے دوسرے سینئر ریاستی قائدین کو چوکس ہونے کی ضرورت ہے ۔