!شیوسینا کو این سی پی ۔ کانگریس کی تائید

   

Ferty9 Clinic

ارادہ ہوگیا تو کیا خبر، دنیا کہاں ہوگی
ابھی تو سوچ کی سرحد پہ ہے سیلِ رواں اپنا
شیوسینا کو این سی پی ۔ کانگریس کی تائید !
مہاراشٹرا میں بی جے پی، شیوسینا کے درمیان تشکیل حکومت کیلئے جاری رسہ کشی نیا موڑ لے سکتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت شیوسینا نے چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے دباؤ ڈالا ہے۔ ماقبل انتخابات بی جے پی، شیوسینا کے اتحاد میں انتخابات کا مقابلہ کیا گیا تھا اور ففٹی ففٹی فارمولہ پر زور دیتے ہوئے شیوسینا چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے کوشاں ہے مگر بی جے پی نے اپنے پسندیدہ لیڈر دیویندر فرنویس کو ہی چیف منسٹر کی حیثیت سے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرنویس نے اپنی پانچ سالہ میعاد پرامن طریقہ سے مکمل کی تھی اب دوسری میعاد میں انہیں برقرار رکھنے کیلئے بی جے پی قیادت کی ضد نے شیوسینا کو ناراض کردیا ہے۔ 288 رکنی اسمبلی میں بی جے پی نے 105 نشستوں پر اور شیوسینا نے 56 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ارکان اسمبلی کی تعداد میں دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ بی جے پی کو ارکان کی تعداد کے لحاظ سے بڑی پارٹی کا موقف حاصل ہے لیکن مہاراشٹرا کے چیف منسٹر کا عہدہ دونوں پارٹیوں کیلئے اہم ہے۔ شیوسینا اس مرتبہ یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن بی جے پی اس پر راضی نہیں ہے۔ ناراضگی اور تشکیل حکومت میں پیدا شدہ تعطل کے درمیان ادھو ٹھاکرے کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شردپوار سے بات چیت کے بعد قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ شیوسینا اپنے بل پر حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرے گی اور شردپوار کی پارٹی این سی پی اس کی تائید کرے گی۔ امکان غالب ہیکہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے کانگریس بھی شیوسینا حکومت کی تائید کرسکتی ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں این سی پی کو 54 نشستیں اور کانگریس کو 44 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ شردپوار کے ساتھ ٹھاکرے کی بات چیت کے بعد یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ شیوسینا کے ساتھ این سی پی ۔ کانگریس مل کر اتحاد کریں گی اور شیوسینا کی حکومت کی باہر سے تائید کی جائے گی۔ شیوسینا کی باہر سے حمایت کرنے کی تجویز کو شردپوار نے فی الفور طور پر مسترد تو نہیں کیا ہے لیکن بی جے پی یہ تبدیلی ہونے کا موقع دے گی یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ بی جے پی کے پاس ارکان اسمبلی کی تعداد زیادہ ہے تو وہ خود کی برتری کو منوانے کیلئے کچھ بھی کرے گی۔ 5 نومبر کو شردپوار ممبئی واپس ہورے ہیں۔ شیوسینا سے اتحاد کی تجویز پر غور کرتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل کو قطعیت دی جائے گی۔ مہاراشٹرا کانگریس کے قائدین نے بھی پارٹی لیڈر سونیا گاندھی سے اس تجویز پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہیکہ این سی پی، کانگریس جیسی سیکولر پارٹیاں بھی شیوسینا کی حمایت کرتے ہوئے اپنے رائے دہندوں کو ناراض کریں گی؟ کانگریس کے سابق صدر ممبئی سنجے نرپم کا یہ خیال ہیکہ کانگریس کو بی جے پی، شیوسینا کی اقتدار کی لڑائی سے خود کو دور رکھنا چاہئے۔ بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کی یہ لڑائی عارضی ہے۔ زائد وزارتوں کا مطالبہ کرنے والی شیوسینا اور بی جے پی کے اس ڈرامہ میں کانگریس اپنا کوئی رول ادا نہ کرے۔ مہاراشٹرا میں کانگریس کا موقف پہلے سے زیادہ بہتر ہوا ہے۔ رائے دہندوں کے خط اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے اگر شیوسینا کی تائید کی جاتی ہے تو یہ بہت بُرا ہوگا۔ شیوسینا جیسی پارٹی کے ساتھ کانگریس کا اتحاد کئی مسائل پیدا کرسکتا ہے پہلے ہی سے نرم ہندوتوا اختیار کرنے کیلئے بدنام کانگریس نے این سی پی قیادت کی باتوں میں آ کر شیوسینا کو حکومت بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے باہر سے تائید کا فیصلہ کرے گی تو سیکولر رائے دہندے اسے معاف نہیں کریں گے۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش رائیگاں جائے گی۔ شیوسینا کیلئے بھی بی جے پی سے دور رہ کر اقتدار بنانے کا خواب مہنگا پڑے گا۔ بی جے پی کے خلاف شیوسینا نے جو شکایات کی ہیں یہ شکایات انتخابات سے قبل اتحاد کے وقت کی جاتی تو بہتر ہوتا لیکن نتائج آنے کے بعد شیوسینا نے اپنے سیاسی پارٹنر کی برائیاں شروع کردی ہیں۔ معاشی سست روی کا حوالہ دیکر اس کے خلاف اپنا الگ گروپ بنانے کی کوشش شروع کی ہے۔ عوام یہ سب کچھ خاموش دیکھ رہے ہیں اور یہ خیال ابھر رہا ہیکہ شیوسینا موقع پرستی کا بدترین مظاہرہ کرکے بھی کامیاب نہیں ہوگی۔
ہندوستانی معیشت میں مزید اصلاحات کی ضرورت
ماہرین معاشیات نے ہندوستانی معیشت کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال پر جاری کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہیکہ نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت میں ملک کی معاشی ترقی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ وزارت کامرس و صنعت نے ملک میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں آنے والے انحطاط کی خراب خبر سنائی ہے۔ گذشتہ چوتھائی حصہ میں معاشی ترقی کی شرح جہاں 5.8 فیصد تھی اب یہ شرح 5.2 فیصد ہوگئی ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں اور خانگی اداروں نے قیاس آرائی کی ہیکہ ہندوستانی معاشی شرح 6 فیصد ہوگی لیکن اس حقیقت کو بھی پوشیدہ نہیں رکھا گیا ہیکہ ہندوستان کی شرح پیداوار میں ابتری آئی ہے۔ موٹرساز کمپنیوں کی پیداوار میں گراوٹ کو سب سے بڑا دھکہ بتایا جارہا ہے۔ آٹو پارٹس اور اس کے دیگر اداروں میں انحطاط تشویشناک ہے۔ ہندوستان کی آٹو صنعت کا سارا دارومدار اندرون ملک کی مارکٹ پر ہے جب ملک کی مارکٹ ہی سست روی سے دوچار ہوجائے تو پھر کاریں بنانے والی کمپنیوں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایک طرف موٹر کار بنانے والی کمپنیوں میں پیداوار گھٹ رہی ہے دوسری طرف آئی ٹی کمپنیوں پر کساد بازاری کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں نتیجہ میں ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان دوبارہ بیروزگار ہوجائیں گے۔ کئی آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے اخراجات پر قابو پانے کیلئے ملازمین کی بڑی تعداد میں تخفیف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر یہی صورتحال دیگر شعبوں میں دکھائی دینے لگے تو پھر نوجوانوں میں بیروزگاری شرح میں اضافہ ہوگا۔ 1991ء کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مرکز کی موجودہ حکومت کو اپنی پالیسیوں اور اصلاحات کے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر حکومت آنے والے برے دنوں سے ملک کو بچانے کی فکر رکھتی ہے تو اس کو فراخدلانہ طور پر اصلاحات لانے ہوں گے۔