ضمانت روزگارا سکیم کے نام کی تبدیلی

   

Ferty9 Clinic

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہروئے منزل ہی نہیں
مرکزی حکومت کی جانب سے قومی ضمانت روزگارا سکیم کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس اسکیم کے خد و خال کے ساتھ اس کے نام کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اس نام کی تبدیلی کے ذریعہ ایک واضح اشارہ دینا چاہتی ہے کہ وہ جہاں گاندھی جی کے نظریات پر عمل نہیں کرتی وہیں وہ ان کے نام کو بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ہر مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں شہرت رکھنے والی بی جے پی زیر قیادت حکومت اس اسکیم کا نام بھی مذہبی خطوط پر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسے سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے ۔ مہاتما گاندھی قومی ضمانت روزگار اسکیم کو اب جی رام جی کا نام دیا جا رہا ہے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے جتنی بھی قائدین ہیں یا پھر جتنی بھی تنظیمیں ہیں ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ لوگ گاندھی جی کے مخالف ہیں۔ گذشتہ چند برسوں سے تو کھلے عام گاندھی جی کا نام لے کر ان کی ہتک اور توہین کی جا رہی ہے ۔ ان کے خلاف سخت ریمارکس کئے جا رہے ہیں اور انہیں نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے مندر بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے مجسمہ لگائے جا رہے ہیںا ور آزاد ہندوستان کے سب سے پہلے دہشت گرد کو دیش بھکت قرار دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت سنگھ کے ایجنڈہ اور اس کے نظریات کو آگے بڑھانے کیلئے ہی کام کر رہی ہے اور ملک کے دستور اور قانون کی پاسداری سے زیادہ سنگھ کے ایجنڈہ کی تکمیل پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ اسی سمت میں سرکاری طور پر پیشرفت کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے ایسا لگتا ہے کہ قومی ضمانت روزگار اسکیم کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے جہاں گاندھی جی کا نام ہٹایا جا رہا ہے وہیں ’ رام ‘ کا نام اس اسکیم سے جوڑا جا رہا ہے تاکہ فرقہ پرست اور جنون پسند طاقتوں کی خوشنودی حاصل کی جاسکے ۔ یہ شبہات تقویت پانے لگے ہیں کہ منفی سوچ کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔
جہاں تک سرکاری اسکیمات اور ان کے خد و خال کا سوال ہے تو وقفہ وقفہ سے ضرورت کے مطابق ان میں تبدیلی کرنے اور ان کو وقت کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کا حکومتوں کو پورا حق حاصل ہے اور حکومتیں ایسا ضرور کرسکتی ہیں۔ تاہم جو کچھ بھی اقدامات سرکاری سطح پر کئے جائیں ان کے معاملے میں نیت صاف ہونی چاہئے اور جو وجوہات ہیں ان کی وضاحت کی جانی چاہئے ۔ مودی حکومت اس معاملے میں نہ کوئی وجہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے اور نہ ہی جو سوال کئے جا رہے ہیں ان کا کوئی جواب دیا جا رہا ہے ۔ محض منفی سوچ اور ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے مقصد سے یہ کام کرنے کی شبہات کو تقویت ملنے لگی ہے ۔ جس طرح سے گاندھی جی کی ہتک اور توہین کرنے والوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور ان کی بالواسطہ مدح سرائی کی جا رہی ہے اس سے یہی سوچ واضح ہوتی ہے کہ حکومت نے بھی اسی سوچ کو آگے بڑھانے کیلئے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ اسی سوچ کو مزید مستحکم کرنے اور انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد ہی سے اسکیم کو نیا نام ’ جی رام جی ‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی سوچ کو حکمرانی پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے تاہم مودی حکومت کسی بھی جواز یا کسی بھی وجہ کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور وہ صرف اپنے سیاسی فائدہ اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو ہی آگے بڑھانے پر توجہ کئے ہوئے ہے ۔ وہ کسی بھی فیصلے یا اقدام پر کسی بھی سوال کا جواب دینے بھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں ہی کسی وجہ کی وضاحت کرنا ضروری سمجھ رہی ہے ۔
بی جے پی منفی سوچ کی حامل ہے اور وہ منفی تشہیر کے ذریعہ بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہے ۔ جس طرح سے گاندھی جی کے نام کی مدافعت اور نئے نام جی رام جی کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا ہے بی جے پی اس سے بھی سیاسی فائدہ ہی حاصل کرنے کی کوشش کریگی اور کسی گوشے سے یہ شوشہ چھوڑا جائے گا کہ کانگریس کو رام جی کے نام سے مسئلہ ہے ۔ حکومت کو منفی سوچ و ذہن کے ساتھ کام کرنے کی بجائے سماجی بہتری کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور گاندھی جی کی ہتک کا سلسلہ بند کرنا چاہئے ۔