طلاق ثلاثہ۔ قانون بننے کے فوری بعد تین طلاق کا شکار تین خواتین کی کہانی

,

   

نئی دہلی۔ تین طلاق ثلاثہ کو جرم قراردئے جانے والے قانون کا نافذ کرکے ابھی ایک ماہ کا وقت بھی نہیں گذرا ہے مگر ملک بھر میں کئی عورتیں ایسی ہیں جو اس وباء کا شکار ہورہی ہیں۔ تین عورتوں سے ٹی او ائی کے نمائندے کی بات ہوئی جو اس قانون لڑائی کے لئے ذاتی اخراجات برداشت کررہے ہیں‘

یہاں تک کہ اس نئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیالنج کا سامنا ہے‘ جہاں پر یہ بحث کی جارہی ہے کہ اسکے نشانے پر ایک مخصوصی کمیونٹی ہے۔

اگرہ کی روبی خان جس کی عمر 24سال کی ہے اور ان کے شادی محض چار گھنٹوں بعد ختم ہوگئی۔ روبی کے ساتھ پچھلے دس دنوں سے اس کے دولہن کاجوڑا ایک کونے میں پڑا ہے۔ اب بہ بھی دولہن کی طرح ہی دیکھائی دے رہی ہے۔

اس کی شادی محض چار گھنٹوں کی تھی جب اس کے شوہر نے تین مرتبہ طلاق کہہ کر چلا گیا۔

وہ اگست15 کا دن تھا۔ اس کے لئے وہ دن کافی خوشی تھا۔اس نے اس روز کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”مجھے وہ یاد ہے جب میں نے اپنے شوہر او رسسرال والوں سے اپنا ذہن بدلنے کی گوہار لگائی تھی۔ مگر میری آواز کو ان سنا کردیاگیا“۔

دسویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنے والی روبی پکوان کرتی ہے اور گھر کی صفائی جبکہ ماں پڑوس میں ایک چھوٹی دوکان چلاتی ہے۔

روبی پندرہ سال کی تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اسکی پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے۔روبی کی شادی ڈھول پور کے ندیم سے ہوئی تھی جو ٹریڈر ہے۔ روبی نے کہاکہ ”شادی سے پہلے ان لوگوں نے کوئی مانگ نہیں کی تھی“۔

ندیم نے کبھی بات نہیں کی تھی یہاں تک کہ فون پر بھی کچھ بات نہیں کی تھی مگر اس کے گھر والو ں نے مطالبات کی ایک طویل فہرست ارسا ل کردی‘ کم وسائل کے باوجود روبی کے گھر والوں کچھ سامان اکٹھا کیا‘

چارلاکھ کے قریب شادی کے لئے خرچ کیا۔شادی سے عین قبل جہیز سے انکار کرنے والی دولہا کی فیملی نے کار کی مانگ کی۔

یہ جانتے ہوئے کہ لڑکی کے گھر والو ں کی گنجائش کے یہ باہر ہے روبی کے گھر والوں نے انہیں ایک موٹرسیکل دینے پر رضا مندی ظاہر کردی مگر اس سے ناخوش ندیم نے برہمی کے عالم میں تین طلاق دے کر چلاگیا۔

سسکیوں کے درمیان روبی نے کہاکہ ”ہم نئے قانون کے متعلق جانتے تھے اور ان سے کہاکہ یہ غیرقانونی ہے‘ مگر انہوں نے ہمیں دھمکی دے اور ہماری ایک بات بھی نہ سنی“۔ نصف رات کے قریب روبی کے گھر والو ں نے ایک شکایت درج کرائی۔

ندیم فرار ہے مگر اس کا بڑا بھائی پولیس کی گرفت میں تھا۔

اس کو اگلے روز چھوڑ دیاگیا۔اگلے چار دنوں تک روبی نے اپنے دولہن کے کپڑے نہیں اتارے اس امید کے ساتھ ندیم اس کو واپس لینے کے لئے ائے گا۔مگر پھر اس نے دلہن کا جوڑا اتار کر دور لٹکا دیا۔

اب وہ روز پولیس اسٹیشن تازہ جانکاری کے لئے جاتی ہے اور اس کی لڑائی اب بھی باقی ہے۔اسی طرح کا واقعہ ایک حاملہ عورت کے ساتھ پیش آیاجس کو واٹس ایپ پر طلاق دی گئی۔

ممبرا تھانے کی ساکن 31سالہ یسمین پٹیل جویکم اگست کے روز قانون نافذ ہونے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی‘

یسمین نے ایک این جی او بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن کی مدد سے ممبرا پولیس اسٹیشن میں ایک شکایت درج کرتے ہوئے تین طلاق پر قانون بننے کے بعد اس کا استعمال کرنے والی پہلی عورت بن گئی‘

اسکول ٹیچر کے طورپر خدمات انجام دینے والی یسمین ایم بی اے جو اس کے لئے کافی تھا۔

یسمین او راس کے شوہر امتیاز پٹیل دونوں کے لئے2015میں یہ دوسری شادی تھی۔

امتیاز جو ابوظہبی میں سیلس ایکزیکٹیو کے خدمات انجام دیتے ہیں۔ ملازمت پر واپس لوٹنے سے قبل ایک ماہ ہی گھر میں قیام کیا۔

یسمین نے کہاکہ ان کے بدسلوکی کرنے والے سسرال کے لوگوں نے اسی بھی ملازمت چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہوئے زندگی مشکل کردی تھی۔

انہوں نے کہاکہ ”کچھ مہینوں میں ہی میں کمزور ہونے لگی اور بیماری کا احساس ہونے لگا“۔ایک سال کے اندر ہی وہ اپنے میکے لوٹ گئی۔

یسمین نے کہاکہ ”اس کے بعد حالات معمول پر دیکھائی دینے لگے۔

مگر سال2017میں واٹس ایپ پر ہونے والی با ت چیت سے مجھے پتہ چلا کہ اس کا کسی دوسری عورت کے ساتھ چکر چل رہا ے‘ مگر اس نے انکارکردیا“۔

وہ بھی قرضہ میں تھااور مجھ پر والدین کے گھر سے پیسے لانے کے لئے دباؤ ڈالنے لگا۔ اس نے بتایاکہ ”تین ہزار روپئے مجھے ماہانہ دئے جاتے تھے جس سے میرے دوائیوں کا خرچ بھی نہیں نکلتا تھا‘ گھر کیسے چلے گا۔

اگر میں کچھ کہتے تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی دیتا‘ ایسالگ رہاتھا کہ وہ میرے او رمیرے والدین کے اوپر اس کو ہتھیار کی طرح استعمال کررہاتھا“۔

پچھلے سال امتیاز انڈیا واپس لوٹا مگر دونوں کے درمیان تعلقات نہیں ہوئی۔

حمل کے دوران ہی امتیازنے ایک بحث کے دوران تین طلاق کہہ دیا او ریسمین کے ساتھ اس کی والدہ کو بھی واٹس ایپ پر اپنا فیصلہ سنادیا۔ یسمین کو امیدتھی کہ فبروری 2019میں بچے کی پیدائش حالات تبدیل کردیں گے۔

اس نے مزیدکہاکہ ”وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کبھی نہیں آیا۔ میرے والدین میری دیکھ بھال او رسارے اخراجات برداشت کررہے ہیں“

۔چھ ماہ بعد انہیں کوئی یرغمال کی امید نہیں ہے۔

امتیاز نے سیشن کورٹ کا رخ کیاجہاں پر اس کی ضمانت کی عارضی کو خارج کردیاگیا۔ اس کے بعد بمبئی ہائیکورٹ کا اس نے رخ کیا۔ سنوائی ستمبر18سے ہوگی۔

یسمین کو معلوم ہے کہ قانونی لڑائی کافی طویل ہے مگر اس کا ماننا ہے کہ وہ تعلیمی یافتہ ہے اور اس کے ایک خوبصورت بیٹا ہے اور وہ ہر چیالنج کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتی ہے“۔

اسما صاحبہ‘ جیل میں رہنے کے باوجود ان کاشوہر انہیں چین کی سانسیں کی نیند سونے نہیں دے رہا ہے

یہ کشن کمار کی فلم بیوفا صنم کی یادہوسکتی ہے‘ جس کی کہانی میں ایک باغی عاشق اپنی گرل فرینڈ کو گولی مارنے کے لئے جیل توڑ کر باہر آتا ہے۔

مگر جب اسما نے دیور نے اپنا اسٹیٹس ”پیار میں دھوکہ‘ اس لئے ٹھوکا“ کو کمار کے خون میں لت پت چہرے او رہاتھ میں بندو ق والی تصوئیرسے تبدیل کیاتو انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اسما کو دھمکی دینے کے لئے رکھا ہے۔

شوہر کے جیل میں ہونے کے باوجود پچھلے دوہفتوں سے آسما رات میں سو نہیں پارہی ہے۔

بات شروع سے کریں گے۔ آسما کی شادی مارچ2017میں ہوئی مگر اس کے شوہر محمد توصیف جو قیمتی پتھر تراشنے کاکام کرتا ہے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنا جلدی وہ آسما کو اس کے سسرال کے گھر لے جائے۔

ایک سال کا وقفہ گذرنے کے بعد آسامی کے گھر والوں نے پانچ لاکھ روپئے تحائف اور دیگر ساز وسامان جیسے فریج ٹی وی وغیر ہ پر خرچ کئے۔ توصیف کی فیملی جو چوڑی بازار میں رہتی ہے‘

سال2018میں بلآخر اسما کو اپنے گھر لے جانے کے لئے راضی ہوگئے۔

ایک ماہ کے اندر آسما حاملہ ہوگیا اور اس کا حمل ساقط بھی ہوگیا۔ اسما نے کہاکہ ”مجھے ہمیشہ کام کرنے کے لئے کہاجاتا او رآرام کرنے کا موقع نہیں دیاجاتا۔ پھر مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ (سسرال والوں) کو کچھ تکلیف ہے۔

لہذامیں نے اس کے بعد تمام جہیز کی مانگ پر مشتمل مطالبات اور مجھے طلاق دینے کی دھمکیاں ریکارڈ کرنا شروع کردیا“۔

جب وہ دوبارہ حاملہ ہوئی تو اسما اپنے والدین کے گھر اگئے کیونکہ دوسرے بچے کے کھوجانے کا بھی اس کو ڈر تھا۔اس نے کہاکہ اس سے چھٹکارنے پانے پر توصیف اور اس کے فیملی بہت خوش نظر آرہی تھی‘۔

شوہر کی ملاقات ہفتوں تک کے لئے محدود کردی گئی مگر اس کے بعد بھی دونوں میں بحث او رتکرار ہوتی تھی۔ جون 2019میں ایک مخصوص خرا ب لڑائی کے بعد اسما کو گھر سے باہر پھینک دیاگیا۔

پولیس ائی اور توصیف نے اپنے رویہ میں تبدیلی لانے پر رضامندی کرنے لگا او راس ہر مہینہ خرچ کے طور پر ایک ہزار روپئے ادا کرنے کو بھی راضی ہوگیا۔

مگر جیسا ہی وہ لوگ پولیس اسٹیشن کے باہر ائے‘ اس کے ساتھ شوہر اور اس کے گھر والو ں نے بدسلوکی شروع کردی۔ اس کے فوری بعد تصویف نے ہر ہفتہ دو سو روپئے بچہ کے اخراجات دینے تک محدود ہوگیا۔

اگست 7کے روز ان دونوں ملاقات کے دوران دونوں کے درمیان تلخ بحث ہوئی اور توصیف نے اسما کی پیٹائی کی اوراس کو تین طلاق دیدیا۔ پھر اسما پولیس اسٹیشن ایف ائی آر درج کرانے کے لئے گئیں۔

اگست 11کے روز توصیف کو گرفتار کرکے عدالتی تحویل میں بھیج دیاگیا ہے۔

اسما کے وکیل پرویندر کور ملہوترہ نے بتایا کہ اس کی ضمانت کی عرضی مستر د کردی گئی ہے۔

اپنے اٹھ ماہ کی معصوم کے ساتھ زندگی گذار نے والی اسما زندگی کے مشکل دو ر سے عدالت اور پولیس اسٹیشن کے درمیان چکر کاٹتے گذاررہی ہے۔

اسما نے کہاکہ ”اس نے میری زندگی تباہ کردی ہے۔ جس کا اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا“۔