طویل لاک ڈاون کورونا کا علاج نہیں

   

پرکاش مینن
کورونا وائرس کی وباء سے ساری دنیا بحران کا شکار ہے۔ عوام اور حکومتیں پریشان ہیں۔ کئی ملکوں میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں بھی لاک ڈاون کا دوسرا مرحلہ جاری ہے تاہم طویل عرصہ تک لاک ڈاون کا نفاذ کورونا وائرس کا علاج نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستان میں متاثرہ لوگوں کو الگ تھلک کرنا ضروری ہے۔
نوجوان کورونا وائرس یا کووڈ۔ 19 سے یقینا محفوظ ہیں اور وہ ایسی مدافعتی قوت کی بنیاد کو فروغ دے سکتے ہیں جو صرف بزرگ شہریوں کو لاک ڈاون کرتے ہوئے ان کا تحفظ کرسکے گی۔کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہندوستان نے 25 مارچ سے ایک لاک ڈاون کی حکمت عملی اپنائی ہے اور مسلسل لاک ڈاون پر بھروسہ کئے ہوئے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کا سارا بھروسہ اس لاک ڈاون پر ہے۔ اس حقیقت کی اس وقت تصدیق ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے 14 اپریل کو قوم سے اپنے تیسرے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ قومی سطح پر نافذ کردہ لاک ڈاون میں 3 مئی تک توسیع کررہے ہیں۔انہوں نے اُس وقت اپنے خطاب میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ لاک ڈاون میں توسیع کا فیصلہ کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ماہرین صحت کے مشوروں کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ لاک ڈاون میں توسیع کا فیصلہ بہت ہی مشکل تھا اور خاص طور پر ایسے وقت جبکہ معاشی سرگرمیاں پوری طرح ٹھپ ہوکر رہ گئیں جس کے نتائج سارے ملک کے لئے بہت سنگین ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر غیر منظم شعبہ کے لئے جن سے ہندوستان کے غریبوں کی اکثریت وابستہ ہے۔
کوئی بھی یہ امید کرسکتا ہے کہ لاک ڈاون کے اس دور کے بعد ہی اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوسکتی ہیں اور روزگار یا ملازمتوں سے محرومی کے معاملہ میں ہندوستان کی معیشت پر اثر کو منصفانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ زبردست معاشی نقصان ہوا ہے لیکن ہزاروں زندگیوں کو بھی کووڈ۔ 19 کے اثرات سے بچایا گیا۔ ایک بات ضرور ہے کہ کورونا وائرس کے باعث جہاں اقتصادی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں وہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملازمتوں سے محروم ہوئے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ غربت اور غریبوں کی تعداد بڑھ گئی، تعلیمی شعبہ میں بہت زیادہ خلل پڑا۔ زندگیوں کے اتلاف کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔

حکمت عملی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسا پل ہے جو طریقہ اور مقاصد کو مربوط کرتا ہے۔ آج عالمی سطح پر کورونا سے پیدا شدہ صورتحال استعارہ کے طور پر ’’جنگ‘‘ قرار دی جارہی ہے یہ ایسی صورتحال ہے جس میں سارا عالم اس وباء سے متاثر ہوا ہے اس لئے اسے عالمی وباء بھی قرار دیا گیا ہے۔ہر جنگ میں کچھ اصول کچھ طریقے ہوتے ہیں جن پر عمل کیا جاتا ہے جنہیں اپنایا جاتا ہے اور مقصد کا تعین کیا جاتا ہے اور حکمت عملی کے تعین کا انحصار مخالف کی اپنائی گئی حکمت عملی و منصوبہ سازی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر مخالف پر اپنی برتری قائم بھی نہ کی جائے تو اس پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔اس صورت میں مخالف COVID-19 ایسا لگتا ہے کہ آزادانہ مرضی کا حامل ہے اور یہ انسانی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اگرچہ یہ بے شمار انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے لیکن صرف ایک محدود ڈگری تک مہلک ہے اور ماضی میں رونما ہوئیں وباوں کے بہ نسبت اس میں زیادہ ہلاکتیں نہ ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق میں H1N1، SARS، سوائن فلو اور ایبولا جیسی وباوں میں انسانی جانوں کا بہت زیادہ اتلاف ہوا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ وباء کون پھیلا رہا ہے اور کیسے پھیلا رہا ہے اس بارے میں ہم جانتے ہیں۔ اس لئے ہی لاک ڈاونس، سماجی دوری، آلات تحفظ اور ہاتھ دھونے جیسے اقدامات اختیار کئے گئے ہیں اور کئے جارہے ہیں۔
دوسری طرف لاک ڈاون کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ لاک ڈاون کے دوران جو وقت ہمیں مل رہا ہے اسے اسپتالوں میں بستروں کی دستیابی میں اضافے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک بہت بڑا خدشہ یہی تھا کہ اگر قومی سطح پر لاک ڈاون نافذ نہیں کیا جاتا تب تک نگہداشت صحت کی سہولتوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ان سہولتوں کو فروغ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر اقتصادی سرگرمی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو لاک ڈاون سے ہمیں اجتماعی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ لاک ڈاون سے معیشت کو مہنگی قیمت ادا کرنی پڑی ہے اور اس بات کے خدشات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ لاک ڈاون کا اثر ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی پر پڑے گا اور جی ڈی پی کے نمو میں قابل لحاظ کمی آئے گی۔ اقتصادیات پر کورونا کے اثرات سے ہندوستان کا غریب سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ یا طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ لاک ڈاون کے اثرات کو کم کرسکتی ہے خاص کر مرکزی و ریاستی سطح پر۔ اگرچہ بعض اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے کم از کم بھوک مری کو تو ختم کیا جانا چاہئے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کو بھوک مری سے بچانے کے لئے حکومت اناج کے محفوظ ذخائر کو استعمال کرسکتی ہے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس طرح قدم نہیں اٹھایا۔

ہندوستان میں گرما کے موسم کے بیچ عوام کے غیر یقینی مستقبل کو خوشحال مستقبل میں تبدیل کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں تو اس کا نفسیاتی اور جسمانی اثر لوگوں پر پڑسکتا ہے۔ ویسے بھی لاک ڈاون کے دوران لوگ گھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں اور جو لوگ نقل مکانی کرکے دوسری ریاستوں میں کام کررہے تھے وہ بھی وہاں پھنس گئے ہیں۔ اس نکتہ پر اگر توجہ نہ دی گئی تو پھر عوام کی زندگی ایسا لگتا ہے کہ ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ 14 اپریل کو ممبئی کے باندرا ریلوے اسٹیشن پر جمع ہونے والے مہاجر مزدوروں پر جس طرح لاٹھی چارج کیا گیا اس سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ یہ مزدور دراصل اپنے آبائی مقامات کو جانے کے خواہاں تھے اور حکومت سے انہیں واپس بھیجنے کے انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

ہندوستان کے ترقیاتی سلسلہ کے تحفظ کے لئے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے بہتر حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ موثر ادویات اور ٹیکے کی عدم موجودگی میں کورونا وائرس کا مقابلہ مضبوط قوت مدافعت سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے بھی خصوصی حکمت عملی درکار ہے۔ حکومت کو اپنے صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں کے شعبہ کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔جہاں تک کورونا وائرس کا سوال ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ 60 سال سے زائد عمر کے لئے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہندوستان کے لئے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اس کی آبادی کا کثیر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد جملہ آبادی کا صرف 7 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسبتاً کووڈ ۔ 19 سے بچے ہوئے ہیں اور جو بڑے بزرگوں کو بھی اپنی مدافعتی قوت کے ذریعہ کورونا وائرس سے بچا سکتے ہیں۔

لاک ڈاون کی حکمت عملی کے برخلاف موجودہ صورتحال میں لاک ڈاون صرف بڑے بزرگوں کے لئے کیا جانا چاہئے جس سے ان کی زندگیوں کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ حکومت بڑے، بوڑھے لوگوں کو الگ کرنے کی کوشش تو کریں لیکن اسے سماج کے اس حصے کو بھی ہدایات دینے کی ضرورت ہے، اس کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو رہنے کی جگہ کی قلت کے باعث بڑی عمر کے لوگوں کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں کے گھر چھوٹے ہوں یعنی غریب آبادی اس میں سماجی دوری اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔ بہرحال ایک بات تو ضرور ہے کہ خود کو گھروں میں بند رکھتے ہوئے ہم انفکشن سے دور رہ سکتے ہیں۔