عدل و احسان اور صبر وایثاراسلامی اخلاقیات کے بنیادی مقاصد

   

اسلام چونکہ دنیوی اور دینی ، نجی اور اجتماعی زندگی میں امتیاز روا نہیں رکھتا اس کے لئے اخلاق کا مسئلہ کل زندگی کا مسئلہ ہے ۔ حسن اخلاق کا مقصد اعلیٰ رضائے الٰہی کا حصول ہے ۔ یہ کمال انسان کے ان تقاضوں کو پورا کرتا ہے جو دین کا منتہا ہے ۔ اسلام کا تصور اخلاق اعمال صالحہ اور اعمال غیرصالحہ میں امتیاز قائم کرتا ہے لہذا یہ عین دین ہے ۔ مروجہ مغربی اخلاقیاتی تصور سے بالکل مختلف ہے ۔
D.M.Donald Sonنے مسلمانوں کے تصور اخلاق پر ایک کتاب Studies in Muslim Ethics لکھی ہے جس میں جاھلی عربوں کے ضابطہ اخلاق مروت کو مسلم اخلاق کے ابتدائی عناصر کے طورپر جگہ دی ہے اور ان کی سخاوت اور فیاضی و مہمان نوازی کے علاوہ ان کے اصول قصاص اور ضابطۂ انتقام وغیرہ کا بھی ذکر کیاہے ۔ جبکہ قرآن مجید کا مزاج ڈانلڈ سن کی رائے کے برعکس عرب کے عرف و عادت پر نہیں بلکہ پوری انسانیت کے مزاج پر ہے ! اس لئے اسلام کے اخلاقی ضابطے لازمی طورپر عرب رسم و رواج کے تابع نہیں رہے بلکہ عام انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ اگرچہ عربوں کے عرف و عادت کے صالح عناصر بھی اس میں موجود ہیں۔ اسلامی اخلاق کا پوری نوع انسانی کی فطرت کے مطابق ہونے کے ثبوت میں قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث شریفہ موجودہ ہیں۔
اسلام میں اخلاق کا دنیوی مقصد محض راحت و مسرت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد حقیقی فوز و فلاح ہے جو دنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی مطلوب و مقصود ہے ۔ مسرت و راحت بنیادی طورپر ایک انفرادی کیفیت ہے اور فوز و فلاح وہ خوش بختی ہے جو مستقل انفرادی اطمینان کے ساتھ اجتماعی خیر و اطمینان کی بھی ضامن ہے ۔
یونانی تصور اخلاق میں انسان کو بالطبع شریر تسلیم کیا ہے لیکن اسلامی تصور میں انسان بالطبع سلامت روی کا میلان رکھتا ہے اس کو فجور و تقوی دونوں کا شعور دے دیا گیا ہے ۔ لہذا تربیت سے شریر بھی صاحب خیر ہوسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں اسلامی تصور اخلاق میں عدل کے ساتھ احسان ، ایثار صلہ رحمی اور دوسرے انسانوں کی خاطر ضبط نفس کی اقدار پائی جاتی ہیں۔
مغربی اسکالرس نے کسی عقلی تجزیے اور تاریخی مطالعے کے بغیر ہی مسلم اخلاقیات کو یہ کہہ کر ناقص قرار دیا کہ اس میں عورتوں اور غلاموں کا درجہ کمتر ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اسلام کے مدنظر فطرت کے قوانین اور مساوات کی عملی روح کارفرما تھی ۔ مغرب کے ظواھر نہ تھے جن میں نمائشی مساوات کے پردے میں صنف خواتین کے ساتھ بڑی غیرعقلی عدم مساوات موجود ہیں۔
ڈانلڈ سن نے اسلامی اخلاقیات کو عیسائی اخلاقیات سے متاثر قرار دیا اس میں شبہ نہیں کہ الہامی مذہب ہونے کے لحاظ سے بعض اسلامی اخلاقی رویئے عیسوی اخلاقی رویوں سے قریب ہیں مثلاً گروہی نقطہ نظر کے بجائے کلی انسانیت کا نقطۂ نظر لیکن عیسائیت کا نقطۂ نظر محدود ہے ۔ زندگی کے عملی معاملات میں غیرتسلی بخش ہے ۔ تاہم اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر عدل پر قائم ہے یعنی اس میں بدی اور طاقت کے سامنے مرعوب ہونے کا اصول موجود نہیں بلکہ قسط اور تقویٰ مدار عمل ہے ۔
یورپ کے جدید ترین اخلاقی فلسفے مادیت پر قائم ہیں ، ان میں مفیدیت (Utility) اور نتائج (Pragmatism) کے نظریہ کا غلبہ ہے ۔ اسلامی اخلاقیات کی روح خود غرضی کے ہر شائبے سے پاک اور ایثار اس کی بنیاد ہے۔ یونانی تصور اخلاق اپنے شہری اور غیرشہری یونانی اور غیریونانی میں امتیاز کرتا ہے مگر اسلام کا تصور اخلاق اس طرح کاامتیاز روا نہیں رکھتا ۔ اس کے علاوہ یونانی اخلاق میں ہمسائے سے محبت یا جودوسخا (فیاضی) ایک غیراہم قدر تھی ۔ اجتماعی فائدے کا تصور کسی بلند تر مذہبی معنی پر نہیں بلکہ سیاسی مصالح کے اصول پر قائم تھا ۔ (Garnett ص : ۱۰۴)
نفسیاتی طورپر یونانی اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ کوئی شخص کسی دوسرے فرد کے لئے اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالے گا ۔ پھر یہ بھی کہ یونانی تصور میں اخلاقی قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جو تغیر پذیر ، ناقابل اعتماد اور خودغرضانہ ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس اسلام قانونِ الٰہی کو منھاجِ اول اور منبع قرار دیتا ہے جو مستقل ہے اور اِسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔
علم اخلاق جو یونانی حکمت کی شاخ ( حکمت عملی) کا موضوع ہے علمائے علم الاخلاق کے نزدیک اس کا فائدہ تنقید الطبائع یعنی طبیعتوں کو پاک و صاف کرنا ہے تاکہ انسانی فضائل کا اکتساب اور رذائل کو جانکر ان سے بچنے کی تدبیر کرنا ہے ۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یونانی علوم کا اثر مسلمانوں پر ہوا ہے لیکن قابل غور امر جسے اکثر مستشرقین نظرانداز کرجاتے ہیں یہ ہے کہ اگرچہ مسلم مصنفین نے کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن (حکمت مومن کی گمشدہ دولت ہے جہاں کہیں ملے وہ اس کازیادہ حقدار ہے ) کے مصداق اخذ و استفادہ سے کبھی احتراز نہیں تاہم انھوں نے دیگر اقوام کے علوم و فنون سے جو کچھ اخذ و استفادہ کیاہے اس کو قرآن و حدیث کے رنگ میں ڈھالکر پیش کیا ہے بلکہ ان اجنبی علوم کو اسلامی رنگ میں ترقی و کمال کی منزل تک پہنچایا ہے ۔
( تفصیل کیلئے دیکھئے اردو دائرۃ المعارف جلد ۱۴؍۱ بضمن علم اخلاق )