عصمت ریزی کے واقعات عروج پر

   

کرتا رہتا ہے ملامت ہر گھڑی میرا ضمیر
مجھ کو رہتی ہے سدا اللہ سے شرمندگی
ہندوستان جیسے ملک میں کسی بھی خاتون کی عصمت ریزی یا اس کے ساتھ دست درازی انتہائی معیوب اور گھناؤنی حرکت ہے ۔ ہندوستان میں خواتین کی عزت و احترام کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے ۔ یہاںخواتین کو دیوی تک کہا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے ۔ اس کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی عصمت ریزی اور ان کے ساتھ مظالم کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات شرمناک ہیں اور انتہائی گھناؤنے اور معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس اور حکام کی جانب سے اس طرح کے معاملات میںوہ سنجیدگی نہیںدکھائی جاتی جس طرح کی دکھائی جانی چاہئے تاکہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچایا جائے اور انہیں عبرتناک سزائیں دی جاسکیں۔ کچھ واقعات ہی ایسے ہوتے ہیں جو سیاسی مقصد براری کیلئے موضوع بحث بنائے جاتے ہیں اور ہمارا زر خرید اور تلوے چاٹنے والا میڈیا بھی اس طرح کے واقعات کو موضوع بحث نہیں بناتا اور نہ ہی مجرمین کا دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہمارے گودی میڈیا نفرت پیدا کرنے والے مسائل پر تو کئی کئی ہفتے مباحث کو چلاتا ہے لیکن خواتین کی عزت و ناموس کی خاطر کوئی مہم نہیںچلائی جاتی ۔ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی سیاسی چاپلوسی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اب تازہ ترین واقعات میںپونے کے سوارگیٹ بس اسٹیشن کے قریب ایک نوجوان لڑکی کی بس میں عصمت ریزی کی گئی ۔ ساتھ ہی ایک اور واقعہ مدھیہ پردیش میں پیش آیا ۔گوالیار میں ایک پانچ سالہ لڑکی کی عصمت ریزی کی گئی اور اس کا سر دیوار سے دے مارا گیا ۔ یہ واقعات ہماری غیرت اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں لیکن صرف افسوس کا مذمت کرنا اس طرح کے واقعات کا تدارک نہیں ہوسکتا ۔ ایسے واقعات روکنے کیلئے انتہائی سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہوگی ۔ چنندہ معاملات پر ہنگامہ کرنا ٹھیک نہیںہوگا ہر معاملہ پر سنجیدگی سے کارروائی کی ضرورت ہوگی ۔
چند ماہ قبل کولکتہ کے ایک دواخانہ میںٹرینی ڈاکٹر کی عصمت ریزی کرتے ہوئے اس کا قتل کردیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے بھی سینکڑوں واقعات پیش آرہے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی جامع اور منظم کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ کچھ دیر کی ہنگامہ آرائی کی جاتی ہے ۔ ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے ۔ انہیںجیل بھیج دیا جاتا ہے اور پھر خاموشی ۔ ملزمین عدالتوں سے ضمانت حاصل کرلیتے ہیںکیونکہ ان کے خلاف مقدمات کی پیروی سنجیدگی سے نہیںکی جاتی ۔ فرد جرم عائد کرنے میں بھی اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ عدالتوں سے ملزمین ضمانت پانے میںکامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ روایتی کارروائی ہے جس کے نتیجہ میں عصمت ریزی جیسے سنگین ‘ مذموم اور گھناؤنے جرائم کو روکنے میں کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ ضابطہ کی تکمیل کیلئے کارروائی کرتے ہوئے ہم ملزمین کی حوصلہ شکنی نہیںکرسکتے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملزمین کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی جائے ۔ انہیںضمانتیں نہ ملنے پائیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی سنجیدگی سے پیروی کی جائے ۔ بروقت فرد جرم عائد کیا جائے اور پھر انہیں ایسی سخت ترین سزائیں دلائی جائیںجو دوسروں کیلئے باعث عبرت ہوں اور لوگ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے میںخوف محسوس کریں۔ جب تک اس معاملہ پر قومی سطح پر سخت کارروائی کیلئے اقدامات نہیںکئے جاتے اس وقت تک ان مذموم واقعات کو روکنا یا ان پر قابو پانا شائد ممکن نہیں ہو سکے گا ۔
جہاں تک میڈیا کی بات ہے تو میڈیا بھی اس معاملے میں تعمیری رول اداکرسکتا ہے ۔ سماج میں اس طرح کے واقعات کے خلاف شعور بیدار کیا جاسکتا ہے ۔ میڈیا کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ جس ریاست میں یہ واقعات پیش آئے ہیں وہاں حکومت کس جماعت کی ہے ۔ سیاسی آقاوں کو خوش کرنے اور سیاسی چاپلوسی کرنے کی بجائے خواتین کی عزت و عفت کے معاملہ میں سنجیدگی سے کام کرنے کی اور سماج میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر حکام کی جانب سے تن آسانی سے کام لیا جا رہا ہے تو انہیں بھی میڈیا جھنجھوڑ سکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا میڈیا کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔