عقل و دانش کی حدوں سے ہے بلند تیرا مقام

   

پروفیسر سید بدیع الدین صابری
سیر کی بہت سی کتابوں میں یہ روایت منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک سے واپسی کے موقع پر عرض کیا ’’یارسول اللہ! مجھ کو اجازت دیجئے کہ کچھ آپ کی مدح بیان کروں‘‘ تو حضرت عباس نے ایک مدحیہ قصیدہ سنایا، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انھیں دعاء دی۔ منجملہ اشعار کے ایک شعر یہ ہے:
وردت نارالخلیل مکتتما
فی صلبہ انت کیف یحترق
یعنی ’’جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو آپ اُن کی پشت میں تھے تو وہ کیونکر جل سکتے تھے‘‘۔ حضور نبی کریم ﷺنے اُن کے کلام کی کچھ اصلاح نہیں فرمائی، جس سے اس کلام کی شاعرانہ حیثیت باقی نہ رہی، بلکہ شرعی حیثیت آگئی۔ کیونکہ کسی بات پر شارع علیہ السلام کا سکوت اس کو شرعی مسئلہ بنا دیتا ہے۔اسی نور کے ظہور کا سارا عالم منتظر تھا، جس کے ظہور کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاء کی تھی اور حضرت عیسی علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ہر نبی نے اپنے اپنے زمانوں میں ان کی آمد کی خوش خبریاں دی تھیں۔ آخر وہ ساعت آہی گئی، جس کی تمام دنیا منتظر تھی۔ربیع الاول فصل بہار کا زمانہ تھا، رات اور دن معتدل، نہ سردی کی شدت اور نہ گرمی کی حدت۔ بلبلان چمن اور طوطیان گلشن میں عشرت و شادمانی کا چرچا تھا۔ ۱۲؍ ربیع الاول دوشنبہ کا دن تھا، صبح صادق کے وقت قبل از طلوع آفتاب وہ نور افلاک بہار لولاک باعث تخلیق آدم مقصود جمیع عالم سید الکونین رسول الثقلین سلطان دارین حضور احمد مجتبی محمد مصطفے ﷺکمال حسن و جمال اور نہایت جاہ و جلال سے ظہور میں آئے۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
یہ ہے کون آغوش میں آمنہ کی
صدا آتی ہے مرحبا مرحبا کی
ہوئی مستجاب اب دعاء انبیاء کی
مجسم ہوئی آج رحمت خدا کی
ملک تلوے آنکھوں سے سہلا رہے ہیں
فلک سے قدم چومنے آرہے ہیں
حضور نبی کریم ﷺکے دو لباس ہیں، ایک بشری دوسرا نوری، جو آپ کا حقیقی لباس ہے آپ کی عظمتوں کا جو کچھ ادراک کیا جاتا ہے، اس کا تعلق بشری جہت سے ہے، نورانی جہت سے آپ کی عظمت کا حقیقی ادراک ناممکن ہے۔
عقل و دانش کی حدوں سے ہے بلند تیرا مقام
فکر انسانی سے ممکن نہیں عرفاں تیرا