نئی دہلی :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ ختم ہونے کی خبریں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں ۔ ایک طرف مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی خوب بھلا برا کہا جا رہا ہے۔ اس درمیان ماہر قانون فیضان مصطفیٰ نے بہت اہم بیان دیا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اے ایم یو کا اقلیتی کردار ختم نہیں ہوا ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ 1981 کو منسوخ کیا گیا ہے، نہ کہ اوریجنل ایکٹ 1920۔دراصل فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ترمیمی ایکٹ کو منسوخ کیے جانے سے اوریجنل یعنی حقیقی ایکٹ متاثر نہیں ہوا ہے۔ ایکٹ میں ترامیم تو ہوتی رہی ہیں لیکن تازہ قدم سے اے ایم یو کا اقلیتی کردار خطرے میں نہیں ہے۔ انھوں نے اس بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک اوریجنل ایکٹ ہوتا ہے، پھر اس میں وقتاً فوقتاً امینڈمنٹ یعنی ترمیم ہوتی رہتی ہے۔ اس میں درجن بھر سے زیادہ ترامیم ہوئی ہیں۔ اس میں بڑی ترمیم ہوئی 1951 میں، کیونکہ ملک میں نیا دستور آ چکا تھا۔ اس لیے آرٹیکل 28 کی وجہ سے لازمی مذہبی ہدایات کو ہٹایا گیا۔ اے ایم یو کے 1920 کے ایکٹ میں دیا ہوا تھا کہ کورٹ کا ممبر صرف مسلم ہو سکتا ہے۔ اس کو 1951 میں ہٹا دیا گیا۔ 1965 میں ایک آرڈیننس آیا، پھر ایکٹ آیا اور یونیورسٹی کا کورٹ تقریباً ختم کر دیا گیا، یعنی اس کو بہت چھوٹا کر دیا گیا۔ فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ 1972 میں پھر ایک بڑی تبدیلی (امینڈمنٹ) ہوئی۔ یہ امینڈمنٹ نورالحسن صاحب لائے اور یونیورسٹی کا جمہوری کردار ری اسٹور ہوا، کورٹ اور ایگزیکٹیو کونسل میں الیکشن کا عمل اختیار کیا گیا۔ پھر 1981 میں ایک امینڈمنٹ ہوا جس میں 1920 والے بہت سے ایسے پروویزن ری اسٹور کر دیئے، جن کو 1965 اور 1972 کے امینڈمنٹ نے ختم کر دیا۔ مثلاً، 1920 میں یونیورسٹی کی تعریف تھی کہ یونیورسٹی مطلب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ 1981 میں اس تعریف میں تبدیلی کی گئی اور کہا گیا کہ یونیورسٹی مطلب ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قائم ان کی پسند کا تعلیمی ادارہ۔‘‘تازہ صورت حال کے بارے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہی قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ 1920 کے اوریجنل ایکٹ کو ریپیل یعنی منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ’’یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ایک ایکسپرٹ کی کمیٹی بنائی ہے۔ اس کمیٹی کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیں اور اس کی سفارشات کا انتظار کریں۔‘‘