عوام کی توہم پرستی، باباؤں کی چاندی ہی چاندی

   

رام پنیانی

اترپردیش کے ہاتھرس میں واقع نارائن ساکر ہری (بھولے بابا) کے آشرم میں ست سنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں 121 افراد کی موت ہوگئی۔ بھگدڑ میں مرے ان لوگوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ آپ کو بتادیں کہ نارائن ساکر ہری پہلے پولیس فورس میں تھے بعد میں انھوں نے محکمہ پولیس سے رضاکارانہ طور پر سبکدوشی اختیار کرلی۔ یہ بھی الزام ہے کہ ان کے خلاف عصمت ریزی کے الزامات بھی ہیں۔ بابا نے 28 سال قبل رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کی اور پھر مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔ بھولے بابا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ کینسر سے موت کی آغوش میں پہنچ چکی ایک لڑکی کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں، وہ لڑکی تو دوبارہ زندہ نہیں کی جاسکی لیکن اس کی مسخ ہوئی نعش سے پیدا ہونے والے تعفن نے پڑوسیوں کو پریشان کردیا اور پھر ان لوگوں نے پولیس سے رجوع ہوکر شکایت درج کروائی (کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے بھولے بھالے عوام کس طرح خود ساختہ باباؤں کے چکر میں آکر بے وقوف بن جاتے ہیں اور ان باباؤں کا کاروبار بڑی تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہے چمکنے لگتا ہے)۔ اس واقعہ کے بعد نارائن ساکر ہری کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک کامیاب بابا بن گئے۔ ان کے عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ بابا کی دولت اور آشرموں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 121 افراد بابا کی پاؤں کی دھول حاصل کرنے کے لئے دوڑنے والوں کی بھگدڑ کی زد میں آکر اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن پولیس جو ایف آئی آر درج کرتی ہے اس میں بھولے بابا کا نام نہیں ہوتا جبکہ ان کے کئی ماتحتوں کے نام ایف آئی آر میں درج ہوتے ہیں۔ آخر وہاں بھگدڑ کیوں مچی جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں بتایا کہ بابا کے قدموں کی دھول اور مٹی حاصل کرنے بھکتوں کی کوشش میں اتنا بڑا سانحہ پیش آیا۔ بھکتوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ بابا جہاں قدم رکھتے ہیں وہاں کی مٹی اکثر امراض کو دور کرنے کی خوبی رکھتی ہے۔ اس بارے میں منصوبہ بند انداز میں بڑے پیمانہ پر پروپگنڈہ بھی کیا گیا۔ بہرحال جیسے ہی وہ ست سنگ کے مقام سے روانہ ہوئے لوگ ان کے قدموں کے نیچے آئی مٹی حاصل کرنے دوڑ پڑے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھگدڑ مچ گئی جس میں 121 بھکت مارے گئے۔ آپ ، بابا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس ست سنگ کے لئے 80 ہزار لوگوں کے شریک ہونے کی اجازت حاصل کی گئی لیکن 2.5 لاکھ لوگ ست سنگ میں پہنچ گئے۔ ویسے بھی اس قسم کے بابا ان کے اندھے بھکت ہندوستان میں کوئی نئے نہیں ہیں۔ ایسے ہزاروں بابائیں منظر عام پر آئے اور غائب ہوگئے جنھوں نے بھولے بھالے عوام اور ان کی توہم پرستی کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ حالیہ عرصہ میں اس قسم کے خود ساختہ و نام نہاد باباؤں کے ماننے والوں / چاہنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ یعنی ایسے بابا بھی ہیں جو کچھ مخصوص وجوہات کے باعث مشہور ہوگئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ ان میں آسارام باپو اور گرمیت رام رحیم انسان جیسے بدنام زمانہ بابائیں بھی شامل ہیں جو عصمت ریزی اور قتل کے الزامات میں جیلوں کی ہوا کھارہے ہیں جبکہ دوسرے کامیاب بابائیں جیسے رام دیو کی سپریم کورٹ نے عصری طریقہ علاج و ادویات کے بارے میں گمراہ کن پروپگنڈہ کرنے پر زبردست سرزنش کی ہے اور عدالت عظمیٰ نے ایک نہیں متعدد مرتبہ رام دیو کو اپنی سرزنش کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا۔ دوسری طرف ایک اور بابا شری شری روی شنکر ہیں جو جمنا ندی کے ماحولیات کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں۔ اس طرح جگی واسودیو کے آشرموں کے خلاف بھی مختلف فوجداری مقدمات درج ہیں۔ ان تمام باباؤں میں جو چیز مشترک ہے وہ ان کی غیرمعمولی پُراعتمادی، دولت مندی اور اندھا عقیدہ ہے۔ ہندوستان میں ایسے باباؤں کے خلاف سخت کارروائی بہت مشکل ہے۔ اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان باباؤں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں پچھلے چند دہوں سے زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ان کے برھتے ہوئے اثر و رسوخ، بڑھتی ہوئی طاقت کو مذہب کے نام پر بڑھتی سیاست کے ساتھ جوڑنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ بھی سچ ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی خاص کر مسلم ملکوں میں بھی اس قسم کے کرشماتی مبلغ موجود ہیں لیکن ہندوستان میں اس قسم کے لوگوں کا اثر غیر معمولی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مذہبی چولہ پہنے رہتے ہیں۔ یہ باقاعدہ مذہبی تعلیمات حاصل کرنے والی شخصیتوں کے قافلہ سے تعلق نہیں رکھتے جو باقاعدہ مذہبی تعلیمات حاصل کرچکے ہوتے ہیں مذہبی اداروں / عبادت گاہوں کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس جو خود ساختہ بابائیں یا نام نہاد مذہبی شخصیتیں ہیں انھوں نے اپنے طور پر خود کو مذہبی سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ ان کی ذہانت اور اپنے عقیدت مندوں کی کمزوریوں کو پڑھنے کی صلاحیت غیرمعمولی ہوتی ہے۔ یہ بڑے چالاک ہوتے ہیں اور اپنی چرب زبانی کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیتے ہیں۔ بھکتوں پر ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جیسے وہ ان کے بارے میں ہر چیز جانتے ہوئے آگے کیا ہونے والا ہے اس کی پیش قیاسی بھی کرسکتے ہیں۔ اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ آخر لوگ ان کی جانب کیوں اُمڈ پڑتے ہیں؟ باباؤں کی ذہانت کا ہم نے پہلے ہی ذکر کردیا ہے، وہ اپنی زبان سے اپنی باتوں، ہوشیاری سے لوگوں کو متاثر کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن باباؤں کی اصل کامیابی تو بھکتوں (عقیدت مندوں) کی اپنی کمزوریاں ہیں جو انھیں ان دھوکہ بازوں کی گود میں ڈال دیتی ہیں۔ اکثر سنگین مسائل جو آسانی سے حل نہیں کئے جاسکتے ایسے مسائل کا شکار افراد تسلی بخش الفاظ، دلاسہ دینے والے جملوں کے منتظر رہتے ہیں اور جب کوئی انھیں بھروسہ دلاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ کے تمام مسائل و پریشانیاں حل ہوجائیں گی اگر تم بابا کے قدموں کی دھول ان کے قدموں کی مٹی حاصل کرو گے یا بابا کے بتائے ہوئے مشوروں کو اپناؤگے، ان پر عمل کروگے تب وہ پوری طرح ایسے باباؤں کے چکر میں آجاتے ہیں۔ ان باباؤں کے پاس لوگ اصل میں معاشرہ میں اپنے عدم تحفظ کے باعث اُمڈ پڑتے ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ باباؤں کی کامیابی کے کئی دوسرے پہلو اور عوامل بھی ہیں۔ ان میں سے باباؤں اور سیاستدانوں کے درمیان پایا جانے والا ناپاک گٹھ جوڑ بھی ایک ہے۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ گرمیت رام رحیم کی سنگین الزامات کے تحت جیل کی سزا سنائے جانے کے باوجود وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے اکثر و بیشتر پیرول پر رہتے ہیںخاص طور پر اس وقت جب الیکشن ہونے والے ہوتے ہیں۔ کوئی اس وقت کو نہیں بھول سکتا جب چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر اپنی ساری کابینہ کو لئے گرمیت رام رحیم کا آشیرواد حاصل کرنے پہونچ گئے تھے (اب منوہر لال کھتر مرکزی کابینہ میں شامل ہیں)۔ اگر دیکھا جائے تو بھکتوں کی احاس عدم تحفظ سے کہیں زیادہ ان کی نفسیات سمجھنے کے لئے عقیدت مندوں کے عدم تحفظ کا پہلو ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عقیدت مند باباؤں کو جتنا اپنے بارے میں بتائیں گے ان کی عقل یا معقول سوچ و فکر پوری طرح رخصت ہوجاتی ہے۔ عدم تحفظ یا INSECURITY کے پہلو کا جہاں تک سوال ہے اس پہلو کو اس وقت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے جب ہم عالمی پس منظر دیکھتے ہیں۔ ان ممالک میں جہاں معاشی اور سماجی عدم تحفظ کم ہے ان کے سرگرم فالوورشپ میں مذاہب سے لوگوں کی قربت میں کمی دیکھی گئی۔ نیو گلوبل ریاسرچ میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملہ میں مغربی یوروپی ممالک عام طور پر امریکیوں کی بہ نسبت کم مذہبی ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں جو مردم شماری کی گئی ان میں سیکولر رجحانات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔جبکہ ہمارے ملک میں توہم پرستی بہت زیادہ ہے جس میں سائنسداں، ماہرین تعلیم، سیاستداں سب کے سب ڈوبے ہوئے ہیں جس کا فائدہ خود ساختہ نام نہاد بابائیں اُٹھاتے ہیں۔