مولانا سید متین علی شاہ قادری
اسلام میں ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو عید الفطر کہتے ہیں۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺمکہ سے ہجرت فرماکر جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے ان سے پوچھا کہ ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘۔ انھوں نے عرض کیا کہ ’’ہم زمانہ جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے‘‘۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’اللہ تعالی نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کردیئے ہیں، یعنی عید الاضحی اور عید الفطر‘‘۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت سے شروع ہوئی، جب رسول ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے۔ عید الفطر اور عید الاضحی ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوا ہے۔
آج عید کے دن اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بےحد مہربان ہوتا ہے۔ وہ بندگان خدا خوش نصیب و مقبول بارگاہ ہیں، جنھوں نے اپنے معبود حقیقی کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے احکامات کی پابندی کی۔ عید کی مسرتیں ان لوگوں کو میسر ہوں گی، جنھوں نے اپنے شب و روز اطاعت خداوندی میں گزارے۔ روز محشر ان کے چہرے نور سے جگمگاتے ہوں گے۔ گنہگار اور عاصی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ ’’یہ کون لوگ ہیں؟ جن کے چہروں کے نور سے ہماری آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں‘‘۔ یہ صاحب ایمان غریب و مفلس لوگ ہوں گے، لیکن ایمان کے لحاظ سے تونگر و مالدار ہوں گے۔
عید الفطر ماہ رمضان المبارک میں کی گئی رب تعالی کی فرماں برداری، اطاعت اور عاجزی و انکساری کے ساتھ بجالائی گئی عبادتوں، ریاضتوں میں مصروف عمل بندہ مؤمن کو اجرت ادا کرنے اور خوشیاں بکھیرنے کا دن ہے۔ اس دن اللہ رب العزت اپنے فرشتوں میں نماز عید کے اجتماعات میں موجود اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہئے، جنھوں نے اپنی مزدوری ٹھیک اور پوری طرح سے کی ہو؟۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ ’’اے ہمارے معبود! ان کا بدلہ تو یہی ہونا چاہئے کہ ان کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے‘‘۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو کہ ان کے رمضان کے روزوں اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہو گیا اور ان کو بخش دیا‘‘۔حقیقی عید تو ان کی ہے، جن کو رمضان کے روزوں سے فائدہ پہنچا اور ان کے روزے مقبول ہو گئے، ان کے گناہوں کی مغفرت ہو گئی اور وہ نیکیوں اور اخلاق حسنہ کے سانچے میں ڈھل گئے۔عید یقیناً خوشی و مسرت اور اللہ کے عظیم احسانات پر شکر اور اس کی بخششوں کے حصول کا دن ہے اور اس دن خوشی منانا، حسب استطاعت اچھے کھانے کھانا اور مہمانوں کی تواضع کرنا، خوش لباس رہنا یہ سارے کام جائز و مستحسن ہے، لیکن ان سب کے باوجود رمضان المبارک میں اختیار کردہ تقویٰ، پرہیزگاری، نماز کی پابندی اور صدقات و خیرات کا سلسلہ سارا سال جاری و ساری رکھنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرتے ہوئے ہر قسم کی نافرمانی اور اللہ کی ناراضگی والے کاموں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ کی توفیق طلب کرتے رہنا چاہئے کہ یہی حقیقی عید کی مسرت و شادمانی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمان پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ زمین پر اترکر گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں، جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے کہ ’’اے محمد ﷺ کی امت! اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے‘‘۔ بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے، تمہاری لغزشوں پر پردہ ڈالتا رہوں گا اور ان کو چھپاتا رہوں گا۔ میری عزت و جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہو گیا‘‘۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کو عید کے دن کسی نے نہایت پریشان دیکھا تو دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے‘‘۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ عید کے آداب و فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’عید ان لوگوں کی نہیں، جو کھانے پینے میں مشغول ہو گئے، بلکہ عید اُن لوگوں کی ہے، جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرلیا‘‘۔
عید الفطر کے دن درج ذیل امور مسنون ہیں۔ صبح سویرے اُٹھنا، آدابِ شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا یعنی غسل کرنا، مسواک کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے (نئے یا دُھلے ہوئے) جو اپنے پاس موجود ہوں پہننا، خوشبو لگانا ، عیدگاہ جانا، عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجور وغیرہ کھانا، عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، عیدگاہ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس ہونا، نماز عید کے لئے پیدل جانا، راستے میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لاالٰہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔ عید کے دن عورتوں کے لئے بھی مستحب ہے کہ غسل کریں اور عمدہ لباس پہنیں، کیونکہ یہ دن خوشی اور زینت کا ہے۔