غریب کلیان روزگار یوجنا

   

Ferty9 Clinic

وزیر اعظم نریندر مودی نے آج غریب کلیان روزگار یوجنا کا اعلان کیا ہے جس کیلئے 50 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اس اسکیم کا مقصد مائیگرنٹس کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے جو باہر کے مقامات سے اپنے آبائی مقامات کو واپس ہوئے ہیں۔ اس اسکیم کا فی الحال چھ ریاستوں کیلئے اعلان کیا گیا ہے اور ان میں بہار ‘ اترپردیش ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ اوڈیشہ اور جھارکھنڈ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں ہزاروں کی تعداد میں مائیگرنٹس اپنے آبائی مقامات کو واپس ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی دوسری بھی ایسی کئی ریاستیں ہیں جہاں مائیگرنٹس واپس ہوئے ہیں۔ ان ریاستوں کو اس اسکیم سے دور رکھا گیا ہے جبکہ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ یہ اسکیم سارے ملک کیلئے شروع کی جاتی تاکہ تمام ریاستوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں راحت ہوتی اور ترقیاتی کاموں میں تیزی پیدا کی جاتی ۔ تاہم چنندہ ریاستوں کو اس اسکیم میں شامل کیا گیا ہے اور اس کے سیاسی مقاصد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ خاص طور پر اس لئے کیونکہ اس اسکیم کو بہار کے ایک گاوں سے شروع کیا گیا ہے ۔ بہار میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بہار اور اترپردیش کے علاوہ جھارکھنڈ ‘ اوڈیشہ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان ایسی ریاستیں ہیں جہاں کے لوگ ملک کے مختلف مقامات پر اور بیرون ملک روزگار سے جڑے ہوئے تھے لیکن کورونا وائرس کی وباء اور پھر لاک ڈاون نے انہیں روزگار سے محروم کردیا اور یہ لوگ اپنی آبائی ریاستوں اور شہروں کو واپس ہوچکے ہیں۔ یقینی طور پر ان ریاستوںمیں مائیگرنٹس کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے واپسی اختیار کی تھی لیکن دوسری ریاستوں میں بھی ہزاروں لوگ ہیں جنہیں فی الحال اس اسکیم سے محروم رکھا گیا ہے ۔ اس اسکیم کو فوری اثر کے ساتھ اور زیادہ فنڈنگ کے ساتھ سارے ملک میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں بھی اس اسکیم کو وسعت دی جانی چاہئے جہاں سے یہ مائیگرنٹس واپس اپنے آبائی مقام پہونچے ہیں۔
جنوبی ہند کی ریاستوں کے بھی بیشتر لوگ دوسری ریاستوں میں روزگار حاصل کرتے رہے ہیں اور اب وہ بھی اپنے مقامات کو واپس ہوچکے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ان مائیگرنٹس کی صلاحیتوں کو جانچ پرکھ کر اسکیم کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ حکومت روزگار اور ملازمتوں کے مسئلہ پر توجہ دے رہی ہے لیکن اس کو جزوی طور پر لاگو کرنے سے اس کے درکار نتائج برآمد نہیں ہونگے ۔ اس کے علاوہ ملازمتوں کے معاملے میں عدم توازن پیدا ہوگا ۔ صرف چھ ریاستوں کو مواقع فراہم کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کو اس سے محروم کرنامناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ مہاراشٹرا بھی ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے لاکھوں مائیگرنٹس نے واپسی اختیار کی ہے ۔ یہاں بھی کئی کام متاثر ہوئے ہیں۔ روزگار ختم ہوا ہے ۔ تجارت اور کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں۔ یہاں بھی تجارت کو فروغ دینے اور ترقیاتی و تعمیراتی پراجیکٹس کو آگے بڑھانے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے حکومت کو ایک جامع منصوبہ صرف چند ریاستوں کے ساتھ مل کر نہیں بلکہ ملک کی تمام ریاستوں کے چیف منسٹروں کے ساتھ مل کر تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ نہ کسی ریاست سے نا انصافی ہو اور نہ کسی ریاست کے عوام میں محرومی کا احساس پیدا ہو ۔
اس کے علاوہ جو باشندے بیرونی ممالک سے واپس ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بھی حکومت کو جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو سارے ملک کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اقدامات کرنا چاہئے سیاسی اور دوسرے وقتی مفادات کی خاطر ترجیحات میں تبدیلی سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ اگر ملک کی تمام ریاستوں کا ڈاٹا جمع کیا جائے تو کئی ریاستیں مزید ایسی ہیں جہاں مائیگرنٹس کی واپسی ہوئی ہے اور وہ روزگار سے محروم ہیں۔ مقامی سطح پر فی الحال انہیں روزگار ملنا تقریبا نا ممکن ہے بلکہ جن کا روزگار ہے اس کے برقرار رہنے کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ ایسے میں سارے ملک کیلئے نیتی آیوگ کے اشتراک سے منصوبہ بنایا جانا چاہئے چاہے ابتداء میں اسے چند اضلاع تک ہی محدود کیوں نہ رکھا جائے ۔ بعد میں حسب ضرورت اس کو وسعت دی جاسکتی ہے ۔
تلنگانہ میں سرکاری دواخانوں کی حالت
سارے ملک کی طرح تلنگانہ میں بھی کورونا وائرس کا قہر جاری ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب یہ تلنگانہ میں کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلہ میں آگیا ہے اور اس کو اب عروج حاصل ہو رہا ہے جیسا کہ پہلے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ اس صورتحال میں ریاست کے سرکاری دواخانوں سے رجوع ہونے والے مریضوںکی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا ہے لیکن سرکاری دواخانوں کا جو حال ہے وہ میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ سب پر ظاہر ہو رہا ہے ۔ یہاں انتہائی ابتر صورتحال ہے ۔ مریضوں کیلئے بستر تک دستیاب نہیں ہے ۔ ادویات کی قلت ہے ۔ عملہ انتہائی کم ہے اور جو دستیاب عملہ ہے اس کا رویہ بھی مریضوں کیلئے اطمینان بخش نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے بارہا سرکاری دواخانوں میں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ ان دواخانوں کیلئے خاطر خواہ بجٹ بھی فراہم کیا گیا ہے اس کے باوجود دواخانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔ بدانتظامی عروج پر ہے ۔صفائی کا تو نام و نشان تک نہیں ہے ۔ مریض اگر بحالت مجبوری علاج کیلئے رجوع بھی ہو رہے ہیں تو ان کو بھرتی کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے اور پھر نفی میں جواب مل رہا ہے ۔ ایسے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں اور میڈیا میں تشہیر کے باوجود حکومت اس تعلق سے کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کر رہی ہے اور نہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے کچھ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو فوری اس جانب توجہ کرتے ہوئے سرکاری دواخانوں کی حالت کو بہتر بنانا چاہئے ۔