غریبی میں نام پیدا کرنے والے نوجوان سائنسداں

   

محمد اظہرالدین اِدریسی سے بات چیت

محمد ریاض احمد

نہیں نااُمید اقبال اپنی کشت ِویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا یہ شعر یقینا ہم ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کیلئے ایک پیغام ہے جو فی الوقت ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی، تعصب و جانبداری سے پریشان اور اپنی شناخت کو لے کر عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔ 90 کے دہے سے مسلمانوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہیں ناکامی و نامرادی کی تاریکی میں ڈھکیل کر اُمید کا چراغ گل کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے عزم و حوصلوں کو کمزور کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش پر عمل ہورہا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی ، این پی آر ، طلاق ثلاثہ، کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والے آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے ذریعہ اور کسی نہ کسی بہانے یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی دھمکیوں یا پھر مسلم حکمرانوں ، مجاہدین آزادی، علماء کرام اور اہم شخصیتوں سے موسوم شہروں، سڑکوں و اداروں کے نام تبدیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی ایک خاص حکمت عملی پر کام بھی ہورہا ہے۔ دوسری طرف ہجومی تشدد ، دکانات کے ہندو ناموں پر اعتراضات، اکثریتی محلہ جات میں مسلم ٹھیلے بنڈی رانوں ، سبزی و میوہ فروشوں ، چوڑی فروشوں کا داخلہ بند کرتے ہوئے بھی مسلم دشمنی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے۔ ان سنگین حالات کا مسلمان حقیقت میں مسلمان بنتے ہوئے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں علم وہ روشنی ہے جسے اپناکر ہندوستانی مسلمان ہندوستان میں اپنا تشخص و بقاء کو لاحق خطرات سے بہ آسانی نمٹ سکتے ہیں۔ فی الوقت ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ وہ حصول علم پر توجہ دینے لگے ہیں۔ جنوبی ہند کے تعلق سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے جبکہ شمالی ہند کے مسلمانوں میں بھی علم کی روشنی پھیل رہی ہے۔ وہاں بھی نوجوان اپنے مخفی و تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے لگے ہیں۔ آج کل ملک میں خاص کر دیانت دار میڈیا میں ضلع میرٹھ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے میکانیکل انجینئر محمد اظہرالدین ادریسی کے کافی چرچے ہیں۔ سبھارتی یونیورسٹی کے ایم ٹیک فائنل ایئر کے اس ہونہار طالب علم نے فرقہ پرستی کیلئے بدنام ’اترپردیش‘ میں اپنی علمی صلاحیتوں کے ذریعہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام لوگوں کا دل جیت لیا۔ اس نوجوان نے نہ صرف سنگل سیٹر (ایک نشستی ) ہیلی کاپٹر ڈیزائن کیا بلکہ اسے تیار کرکے سب کو حیران کردیا تاہم اسے سرکاری اداروں بشمول وزارت شہری ہوا بازی سے اُڑان بھرنے کی اجازت نہ مل سکی۔ قارئین! ہم نے ہندوستان کے آسمانِ سائنس کے اُبھرتے اس ستارے یعنی محمد اظہرالدین اِدریسی سے خصوصی بات چیت کی، اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ قومی میڈیا نے ہندوستان کو فضائی آلودگی سے پاک بنانے کا عزم رکھنے والے اس نوجوان انجینئر اور سائنس داں کے بے شمار کارناموں کو اہمیت نہیں دی انہیں بری طرح نظرانداز کردیا۔
بہرحال 33 سالہ محمد اظہرالدین ادریسی کے عزم و حوصلہ اور ارادے اس قدر بلند ہیں کہ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کی کامیابی کو نہیں روک سکتی۔ عابد پور مانکی مودی نگر کے آٹو رکشا ڈرائیور جناب امیر الدین اور محترمہ بانو کے گھر آنکھیں کھولنے والے ملت کے اس گوہر نایاب نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بچپن سے ہی ان میں اپنے ملک کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ تھا جس سے اہل وطن کو فائدہ ہو چنانچہ سخت محنت کچھ کرنے کا جذبہ ، غربت بھوک و افلاس پر حاوی ہوگیا اور پھر انہوں نے تعلیم پر توجہ دینی شروع کردی۔ ہندی میڈیم اسکول سے ایس ایس سی کیا اور دسویں جماعت میں 67% نمبرات حاصل کئے۔ انٹرمیڈیٹ میں بھی اچھے نشانات حاصل کرکے بی ٹیک میں داخلہ لیا۔ اظہر کے مطابق جب انہوں نے ہیلی کاپٹر تیار کیا اسے اُڑانے کی اجازت نہیں ملی جس پر انہوں نے سبھارتی یونیورسٹی کو وہ ہیلی کاپٹر بطورِ تحفہ پیش کردیا جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی بی ٹیک اور پھر ایم ٹیک کی ساری فیس معاف کردی۔ محمد اظہر الدین ادریسی نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ کامیابی کیلئے صرف سخت محنت یا جذبہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ سب سے اہم بات ہمیشہ اپنے رب کو راضی رکھنا اور والدین کی دعائیں بہت اہم ہیں۔ والدین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے والدین نے اپنی غربت و تنگدستی کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی چنانچہ ان کے بڑے بھائی سمیر الدین نے بی کام کیا۔ وہ عالم بھی ہیں اور جی ایس ٹی اُمور انجام دینی والی ایک فرم میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ ایک اور بھائی جمیل الدین نے صرف 8 ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن ایک ماہر کار میکانک ہیں، وہ ڈینٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک اور بھائی رئیس الدین نے بھی 8 ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی وہ ٹرانسفارمرس بناتے ہیں۔ ایک بہن ہے ، اس کی شادی ہوچکی ہے۔ محمد اظہرالدین ادریسی نے انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچانے والے اپنے کارناموں کے بارے میں بتایا کہ سنگل سیٹر ہیلی کاپٹر کے بعد ایک الیکٹرک سائیکل بنائی اور اس پر 10,000 روپئے کے مصارف آئے۔ وہ ایک مرتبہ چارج کرنے پر 60 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرتی ہے جبکہ اس کی رفتار 35 کیلومیٹر فی گھنٹے ہے۔ فی الوقت انہوں نے اپنی تیار کردہ الیکٹرک سائیکل سبھارتی یونیورسٹی کے میڈیکل اسٹور چلانے والے سمپت شرما کو دی ہے۔ اظہر نے تیسرا کارنامہ سولار الیکٹرک کارٹ تیار کرکے انجام دیا۔ یہ کارٹ باغیچوں، میدانوں، طیران گاہوں، شاپنگ مالس، مختلف ہاؤزنگ سوسائٹیز میں استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ برقی اور شمسی توانائی سے بھی چلائی جاسکتی ہے اور آلودگی سے پاک ہے۔ اس کارٹ کی تیاری پر 1.5 لاکھ روپئے کے مصارف آئے اور پھر انہوں نے اسے 2.65 لاکھ روپئے میں فروخت کردیا۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں تو سب جانتے ہیں، اس لئے محمد اظہرالدین ادریسی نے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اپنی تیار کردہ سولار الیکٹرک کارٹ دکھائی جس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ستپال سنگھ بھی اظہر کی تخلیقی صلاحیتیں دیکھ کر انگشت بہ دندان رہ گئے۔ اظہر نے شمسی توانائی سے چلنے والا Wheel Borrow بھی تیار کیا ہے۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حیدرآباد کے اوسا رام انجینئرنگ کالج نے ان کی تیار کردہ سولار الیکٹرک کارٹ خریدی ہے۔ چونکہ اظہر کے والد آٹو رکشا چلایا کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے آلودگی سے پاک سولار رکشا بھی تیار کیا۔ ساتھ میں ایک الیکٹرک لوڈر Loader بھی تیار کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اظہر نے مزید بتایا کہ دوبئی اور بحرین سے انہیں الیکٹریکل لوڈر کی سربراہی کے آرڈرس ملے ہیں۔ محمد اظہرالدین ادریسی میں اپنے ملک کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کے ہسار میں قائم ایک ملٹری کیمپ کو انہوں نے سولار الیکٹرک کارٹ، ایک الیکٹرک لوڈر بالترتیب 4.5 لاکھ اور 3.5 لاکھ روپئے میں فراہم کیا ہے۔ اپنے آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اظہر نے جواب دیا کہ ان کی زندگی کا مقصد اپنے ملک کو آلودگی سے پاک کرنا ہے کیونکہ آج سڑکوں پر جو چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں، ان سے زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو ماحول کی تباہی اور عوام میں مختلف بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں۔ وہ مارکٹ میں ایسی گاڑیاں لانے کے خواہاں ہیں جو آلودگی سے پاک اور ماحول دوست ہوں کیونکہ مستقبل بھی الیکٹرک و سولار گاڑیوں کا ہے۔ محمد اظہرالدین ادریسی کے مطابق حیدرآباد کی ایک ریسیڈنشیل سوسائٹی نے 6 ای ۔کارٹس کا آرڈر دیا ہے جبکہ ایک کارٹ انہوں نے دوبئی کو فروخت کی ہے۔ محمد اظہرالدین ادریسی نے گرین اسٹار الیکٹرک موٹر اسپورٹس نامی ایک کمپنی بھی قائم کی ہے۔انہیں امید ہے کہ اگر ریاستی و مرکزی حکومتیں اُن کی حوصلہ افزائی کریں تو وہ بڑے پیمانے پر ای۔ کارٹس اور ای سولار گاڑیاں تیار کریں گے۔ اُڑان بھرنے والی کاریں بھی وہ تیار کرسکتے ہیں۔ وہ مارکٹ میں بڑے پیمانے پر پٹرول سائیکل بھی لانے کے خواہاں ہیں۔ اظہرالدین نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہیں، بلکہ گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ بھی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں آگے بڑھانے میں پروفیسر روش کمار سریواستو ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ شعبہ میکانیکل انجینئرنگ اور دوسرے اساتذہ کا اہم کردار ہے۔ وہ اپنے ہندو دوستوں میں کافی مقبول ہیں۔ محمد اظہرالدین ادریسی کے مطابق وہ سابق صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام مرحوم سے کافی متاثر ہیں اور ان ہی کی طرح ہندوستان کی خدمت کرتے ہوئے اسے مضبوط و مستحکم بنانے کا مقصد رکھتے ہیں۔ روزنامہ سیاست کے توسط سے نوجوانان ملت کو ایک پیغام دیتے ہوئے محمد اظہرالدین اِدریسی نے کہا کہ ہمیں کسی بھی طرح مایوس اور نااُمید نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انسان بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ اگر آپ قابل ہوں تو دنیا آپ کی قدر کرے گی۔ وہ آپ کے مذہب ، ذات پات یا علاقہ کو نہیں دیکھے گی۔ بہرحال اللہ عز و جل نے محمد اظہرالدین ادریسی کو علم کی دولت سے مالامال کرتے ہوئے انہیں غربت کے خاتمہ کے قابل بھی بنایا۔ اپنی کامیابیوں کے ذریعہ اس نوجوان نے سارے ہندوستان کو بتادیا کہ غریب وہ ہے جو تعلیم سے محروم ہے۔ اللہ جن لوگوں کو علم و ایمان سے نوازتا ہے، وہ ہی حقیقی دولت مند ہوتے ہیں۔ بہرحال محمد اظہرالدین اِدریسی نے علامہ اقبالؔ کے اس شعر کو اپنی صلاحیتوں سے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
[email protected]