غزہ جنگ بندی معاہدہ

   

کھیلی ہے ہولی آہ درندوں نے خون کی
زخموں کی جو خراش تھی پھر سے اُبھر گئی
غزہ جنگ بندی معاہدہ
غزہ میں بالآخر جنگ بندی کا معاہدہ طئے پا گیا ہے ۔ اسرائیل اور حماس کے مابین یہ معاہدہ ہوا ہے اور یہ توقعات کے مطابق ہی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اپنی معیاد کی تکمیل سے قبل اس طرح کا معاہدہ کروانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے آخری ایام کو یادگار بنایا جاسکے ۔ امریکہ میں 20 جنوری کو نئے صدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ ذمہ داری سنبھالنے والے ہیں اور انہوں نے بھی غزہ میںجنگ بندی کی حمایت کی تھی ۔ ایسے میں کہا جا رہا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ بائیڈن کے دور صدارت ہی میں طئے ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا ہے ۔ حماس اور اسرائیل کے مابین طئے پائے معاہدہ میںکئی امور پر اتفاق کیا گیا ہے جن میں قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے ۔ سینکڑوں فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا جائیگا اور کئی دوسرے امور کو بھی معاہدہ میںقطعیت دی گئی ہے ۔ اسرائیل نے مصر سے منسلک سرحد سے دستبرداری سے بھی اتفاق کرلیا ہے ۔ حماس کی جانب سے بھی 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جائیگا ۔ قطر نے اس معاہدہ کو یقینی بنانے میں اہم رول نبھایا ہے ۔ قطری وزیر اعظم نے فریقین سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرتے ہوئے کئی اہم اور پیچیدہ مسائل پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم رول نبھایا ہے ۔ چھ ہفتوں کیلئے یہاں لڑائی روک دی گئی ہے اور دیگر امور کی تکمیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں توسیع بھی کی جائے گی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غزہ کے جن علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا ہے وہ ان علاقوں سے دستبرداری بھی اختیار کرے گا ۔ جہاں اسرائیل اس معاہدہ کو قطعیت دئے جانے کی وجہ سے مطمئن ہے وہیں حماس نے بھی اس پر طمانیت ظاہر کی ہے اور کہا کہ اس جنگ کے تعلق سے اس کے جو مقاصد تھے وہ پورے ہوئے ہیں۔ یہ پہلی بار کہا جاسکتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف پر طمانیت کا اظہار کر رہے ہیں اور انہوں نے جنگ بندی کو نافذ کرنے سے بھی اتفاق کرلیا ہے اور غزہ اور غزہ کے عوام کیلئے یہی بات سب سے زیادہ ا ہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ ضرورت یہی ہے کہ اس معاہد ہ کو حقیقی معنوں میں نافذ العمل کیا جائے ۔
اس معاہدہ کے مطابق غزہ کے متاثرہ علاقوں میں انسانی بنیادوں پرا مداد بھی فراہم کی جائے گی اور اس کی روانگی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی ۔ سب سے زیادہا ہمیت کا پہلو یہی ہے کہ غزہ میں عوام کو جس طرح کے غیر انسانی حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور کردیا گیا تھا انہیںدور کیا جائے ۔وہاں کے عوام کو سب سے پہلے غذائی اور علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ انفرا اسٹرکچر جو تباہ ہوگیا ہے اسے بحال کیا جائے ۔ اس کی مرمت پر توجہ دی جائے ۔ عوام پر ہونے والے نفسیاتی اثرات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔سارے غزہ کی تعمیر جدید پر توجہ دی جائے ۔ یہودی باز آبادکاروں کو ان علاقوں سے نکال باہر کیا جائے جو فلسطینی عوام کے قبضہ میں تھے اور غزہ میںانسانیت سوز کارروائیوں کے بعد ان پر یہودی باز آبادکاروں نے قبضہ کرلیا تھا ۔ غزہ میںبنیادی ضروریات کا نظام بحال کیا جائے ۔ اس کے ذریعہ عوام کو راحت پہونچائی جائے ۔ غذائی اجناس کی قلت کو دور کیا جائے ۔ پینے کے پانی کی جو ضروریات ہیں ان کی تکمیل کی جائے ۔ علاج و معالجہ کا جو انفرااسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے اس کو بحال کیا جائے ۔ دواخانوں کی مرمت کی جائے ۔ ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ دواخانوں میںمریضوں اور زخمیوں کے علاج کو یقینی بنایا جائے ۔ جنگ بندی کی مہلت کے دوران تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے جامع منصوبہ کے ساتھ اور بہت تیزی کے ساتھ اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ عوام کو راحت مل سکے ۔
علاقہ کے ذمہ دار ممالک کو بھی اس معاملے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ کئی ماہ سے یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور کردئے گئے تھے ۔ اب انہیںبنیادی سطح کی راحت ضرور پہونچائی جانی چاہئے ۔جو علاقے تباہ ہوگئے ہیں ان کو رہنے بسنے کے قابل بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے اس سے عوام مستفید ہوسکیں۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی میںناکامی اگر ہوتی ہے تو جنگ بندی معاہدہ سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اسے بیکار ہی سمجھا جائیگا ۔ معاہدہ کو حقیقی معنوں میں بامعنی بنانا بہت اہمیت کا حامل ہے ۔