غزہ کے حق میں 22 غیر مسلم ممالک کا بڑا قدم

   

روم : 20 مئی (ایجنسیز) اسرائیل نے بالآخر غزہ کے لیے جزوی امداد کی منظوری دے دی ہے اور امدادی قافلوں کو راستہ دینے کے لیے ناکہ بندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ تاہم، صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے 22 ممالک نے اسرائیل کے خلاف متحدہ بیان جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کی امداد میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ ان ممالک میں حیران کن طور پر کوئی بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہے۔ یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک جیسے جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے واضح طور پر اسرائیل کو تنبیہ کی ہے کہ اگر امداد روکی گئی تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، آئس لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، لٹویا، لتھوانیا، لکسمبرگ، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، سلووینیا، اسپین، سویڈن، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ان 22 ممالک میں شامل ہیں۔

ان ممالک کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں امداد روکنے کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں ہزاروں لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور ضروری ادویات کی کمی کے باعث زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے محدود امداد کی اجازت دی ہے، لیکن یہ ممالک مکمل اور بغیر رکاوٹ رسائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے اسرائیل کو انتباہ دیا ہے کہ اگر غزہ پر امدادی کارروائیاں روکنے کی کوشش کی گئی تو پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ ان تینوں ممالک نے اسرائیل سے فوری جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امداد مکمل طور پر بحال کی گئی تو اس سے حماس کو تقویت ملے گی اور وہ مستقبل میں دوبارہ اسرائیل پر حملے کر سکتی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے، لیکن اسرائیل کا مؤقف یہی ہے کہ جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا، فوجی کارروائی جاری رہے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف سب سے مضبوط موقف یورپی اور مغربی ممالک نے اختیار کیا ہے، جبکہ عرب اور اسلامی ممالک کی طرف سے اب تک کسی جارحانہ ردعمل یا واضح مخالفت کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف اسلامی دنیا کے کردار پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہے بلکہ فلسطینیوں کے لیے عالمی سطح پر حمایت کی ایک نئی جہت بھی سامنے لاتی ہے۔

آنے والے دن اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں نہایت اہم ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں اور عوامی دباؤ کے باعث اسرائیل کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔