فرزند قریش حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ

   

خان آصف مرسلہ : عبید بن عثمان العمودی
(۱۵۰ تا ۲۰۴ ہجری )

…گزشتہ سے پیوستہ …
زندگی نئے انقلاب سے دوچار ہونے والی تھی کہ امام شافعیؒ نے ایک غیبی آواز سنی ۔ کوئی آپ سے کہہ رہا تھا ’’محمد! دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہنشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو رسمِ زمانہ کے مطابق نذر پیش کرتا ہے ۔ مالکؒ بھی اقلیم حدیث و فقہ کے تاجدار ہیں۔ تم ان کے حضور کیا نذر پیش کروگے؟ ‘‘ آواز سن کر امام شافعیؒ چونک پڑے ۔ آپ کو اپنی تہی دستی کا احساس ہوا، خالی دامن کی طرف دیکھا پھر اُداس ہوگئے ۔ دربارِ مالکؒ میں نذر پیش کرنے کیلئے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ پھر کئی راتیں جاگتے ہوئے گزرگئیں۔ امام مالکؒ کے در پر گدائی کئے بغیر علم حدیث کی گہرائیوں کو سمجھنا ممکن نہیں تھا ۔ امام شافعیؒ مسلسل کئی دن تک اس صورتحال پر غور کرتے رہے ۔ پھر امامؒ کے ذہن نے عجیب راہ نکالی ۔ دوبارہ جب وہ غیبی آواز سنائی دی تو امامؒ نے فرمایا: ’’ اگر وہ شہریارِ علم مجھ سے سوال کرے گا کہ شافعیؒ ! تو ہماری نذر کو کیا لایا ، تو میں عرض کروں گا ۔ شاہا ! میں تیری بارگاہ میں تیری ہی روایات لے کر حاضر ہوا ہوں‘‘۔
آپ لرزتے قدموں سے روضۂ رسولؐ کی طرف بڑھے۔ امام شافعیؒ جس کے اقوالِ قدسیہ کا علم حاصل کرنا چاہتے تھے ، وہی ذاتِ گرامی آپ کی نظروں کے سامنے محو خواب تھی ۔ امام شافعیؒ اس طرح روضہ رسولؐ کی جانب بڑھ رہے تھے جیسے کوئی لاغر و نحیف انسان بستر سے اُٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہو ۔ جلالِ رسالتؐ سے امام شافعیؒ کے جسم کی ساری توانائی سلب ہوچکی تھی ۔ آپ نے زیرلب اپنے خدا کو پکارا ۔ہمت و استقامت کی دعا مانگی ۔ پھر آہستہ آہستہ سرور کونینؐ کے پائے اقدس کی طرف بڑھے ۔ جذبہ، امام ؒ کا دستگیر تھا اور شوق ، مشکل کشا ۔ چند لمحوں کافاصلہ صدیوں میں تبدیل ہوتا محسوس ہورہا تھا ۔ امامؒ نے اپنی غلامی کا حوالہ پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی نہایت پرسوز آواز میں رحمتہ اللعالمینؐ کے حضور اسلام عقیدت پیش کیا۔ یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور شدید عالمِ اضطراب میں دعا کے لئے دونوں ہاتھ بلند ہوگئے ۔
’’میں کہ تیرا نقشِ کف پا ، میں کہ تیرے راستے کا غبار ، میں کہ تیری بارگاہِ کرم کاگدائے اذلی‘‘ ۔ امام شہہ عرب و عجمؐ کے دربارِ ابدی میں گریہ و زاری کررہے تھے ۔ ’’اگر تمام کائنات مل کر بھی مدح و ثنا کا اہتمام کرے تو حشر تک تیری سیرت کا بیان ختم نہ ہو ۔ زبانیں عاجز رہ جائیں اور لفظوں کا ذخیرہ اپنی تنگ دامانی پر شرمسار ہوجائے۔ اے مولائے کلؐ ، اے خْتم الرسلؐ ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرما کہ ہم تو حضورِ شاہ ، حال دل کہنے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتے ۔ اے صحراؤں پر برسنے والے ابرِ کرم ! شافعیؒ کے رہگزار قلب پر بھی آگہی کی چند بوندیں ، عشق جاں سوز کے چند قطرے‘‘ ۔ امامؒ درود و سلام کے بعد دیر تک دعا کرتے رہے ۔ پھر جب آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوگیاتو اس مجلس نور کی طرف بڑھے جہاں امام مالکؒ تشنگانِ علم کو حدیث رسولؐ کا درس دے رہے تھے ۔
پھر مسجد نبویؐ کے قریب رہنے والوں نے عاملِ مدینہ کو ایک نوجوان کے ساتھ آستانہ مالکؒ پر کھڑے دیکھا ۔ عاملِ مدینہ نے کچھ دےر اس بات کا انتظار کیا کہ شاید کوئی مکان سے باہر آئے اور وہ اپنا پیغام امام مالکؒ تک پہنچائےں مگر جب ایسا نہیں ہوا تو عاملِ مدینہ خود آگے بڑھا اور اس نے دروازے پر دستک دی ۔ دوسرے ہی لمحے ایک سیاہ فام باندی دروازے پر آئی : ’’اپنے آقا کی خدمت میں عرض کرو کہ امیر والی مکہ کا ایک اہم پیغام لے کر حاضر ہوا ہے ‘‘ ۔
باندی باہر ٓئی اس نے درس گاہ کا دروازہ کھول کر عاملِ مدینہ سے اندر آنے کے لئے کہا اور ایک کرسی درمیان میں رکھ دی ، چند لمحوں بعد حضرت امام مالکؒ اس طرح تشریف لائے کہ آپ کے جاہ و جلال کے سامنے کسی مملکت کے شہنشاہ کا وقار بھی ہیچ تھا ۔ حضرت امام مالکؒ والی مکہ کا خط پڑھ رہے تھے اور عاملِ مدینہ سرجھکائے خاموش کھڑا تھا ۔ اس میں اتنی بھی جرات نہیں تھی کہ وہ ایک بار نظریں اُٹھاکر امام مالکؒ کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے سکتا ۔ البتہ امام شافعیؒ بار بار امام مالک بن انسؒکی طرف دیکھتے تھے کہ فرزندِ قریش کا تو مستقبل ہی امام مدینہؒ کے مزاج سے وابستہ تھا ، آخر سفارش نامہ تمام ہوا والیٔ مکہ نے اختتامی سطروں پر تحریر کیا : ’’اس طالب علم کا حال سن لیجئے ، اس کے ساتھ محبت سے پیش آئیے اور اس کے شوق آرزو کی تکمیل کردیجئے‘‘۔
امام مالکؒ نے یہ عبارت پڑھتے ہی والیٔ مکہ کا خط زمین پر پھینک دیا اور انتہائی ناگوار لہجے میں فرمایا: ’’کیا اب رسول اللہ ﷺ کا علم بھی سفارش سے حاصل کیا جائے گا ‘‘۔
امام شافعی ؒ نے گھبراکر پہلے والیٔ مکہ کے خط کو دیکھا جو درسگاہ مالکؒ کے غیرپختہ فرش پر اس طرح پڑا تھا جیسے وہ دنیا کی ناکارہ ترین شے ہو۔ پھر آپ نے اپنی بکھرتی ہوئی قوت ارادی کو سمیٹا اور امام مالکؒ کے حضور عرض کرتے ہوئے کہا کہ میں خاندانِ مطلّب کا ایک فرد ہوں ۔ میرا دامن ظاہری اسباب سے خالی ہے ، والیٔ مکہ اور عاملِ مدینہ کی سفارشات اس لئے حاصل کی تھیں کہ آپ کی ذاتِ گرامی کو اپنی پہنچ سے دور پاتا تھا ۔ اظہارِ حال کی زیادہ طاقت نہیں رکھتا ۔ بس میرا خدا ہی علیم و خبیر ہے کہ یہاں تک کس طرح پہنچا ہوں؟ اتنے قریب آنے کے بعد بھی میں نہیں جانتا کہ ناکام لوٹادیا جاؤں گا یا کسی گوشے میں مجھے پناہ مل جائے گی ؟ ‘‘۔ طرزِ گفتگو میں کوئی پیچ و خم نہیں تھا اس لئے امامِ مدینہؒ فرزندِ قریش سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔
’’تمہارا نام کیا ہے ؟ ‘‘ امام مالکؒ نے علم کی طلب میں سفر کرنے والے مفلس نوجوان پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’محمد بن ادریس‘‘ ۔ امام شافعیؒ نے نہایت مودبانہ لہجے میںمختصر جواب دیا ۔
امام مالکؒ چند لمحوں تک آپ کو گہری نظروں سے دیکھتے رہے پھر محبت بھرے انداز میں فرمایا :’’محمد! اﷲ سے ڈرو اور گناہوں سے بچتے رہو۔ تم ایک دن ضرور انسانیت کے بلند درجے تک پہنچو گے ‘‘ ۔ یہ ایک سند تھی جو امام مالکؒ کی طرف سے فرزند قریش کو عطا کی گئی تھی ۔ امام مدینہ کی زبان سے تحسین آمیز کلمات سن کر امام شافعیؒ آبدیدہ ہوگئے اور اظہارعقیدت کے لئے سر جھکالیا ۔کچھ دیر بعد امام مالک ؒ نے دوبارہ فرمایا : ’’محمد! تم کل سے درس میں شریک ہونا اور اپنے ساتھ ایک ایسے شخص کو بھی لیتے آنا جو تمہارے لئے قرآت کرسکے ‘‘۔ آخر امام شافعیؒ کو وہ اجازت نامہ مل گیا جس کے حصول کے لئے والیٔ مکہ اور عاملِ مدینہ کی کوششیں بھی ناکام ہوچکی تھیں۔
دوسرے دن حضرت امام شافعیؒ درسِ مالک ؒ میں شریک ہونے کے لئے مسجد نبویؐ پہنچے مگر وہاں پہلے ہی شائقین علم کا ایک بڑا ہجوم تھا ۔ امام مالکؒ انتہائی پُرسوز لہجے میں حدیث روایت کررہے تھے اور حاضرین فرطِ ادب سے اس طرح ساکت بیٹھے تھے کہ ان کی سانسوں کی آواز تک نہیں سنائی دے رہی تھی ۔
امام مالکؒ جب بھی کوئی حدیث سناتے ، میں تنکے کو لعابِ دہن سے تر کرکے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا ۔ میرا خیال تھا کہ سب لوگ سماعت حدیث میں کھوئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی میرے اس عمل سے باخبر نہیں ہے مگر حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ امام مالکؒ اپنی مجلس میں شریک ہونے والے افراد کی ایک ایک حرکت پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ چنانچہ امام مدینہؒ کی نظر سے میری حرکت بھی پوشیدہ نہ رہ سکی ۔ میں بہت دیر تک بے خبری کی کیفیت میں مالک بن انسؓ کی بیان کردہ احادیث اپنے ہاتھ پر لکھتا رہا ۔ آخر مجلس ختم ہوگئی لیکن اپنی محویت کے باعث مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چل سکا ۔ یہاں تک کہ میں نے امام مالکؒ کی بارعب آواز سنی ، وہ مجھے اپنے قریب آنے کا حکم دے رہے تھے۔ میں نے گھبراکر چاروں طرف دیکھا تمام لوگ رخصت ہوچکے تھے اب میں بارگاہِ مالکؓ میں تنہا تھا۔ بمشکل تمام اپنی جگہ سے اُٹھا اور لرزتے قدموں سے امام مالکؒ کے سامنے پہنچ کر کھڑا ہوگیا ۔
امام مالکؒ نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر بلند آواز میں فرمایا: تم محمد بن ادریس ہو؟ میں نے ادب سے کہا : ’’جی ہاں ‘‘ امام مالکؒ نے دوبارہ سوال کیا ’’تم وقت پر شریکِ درس کیوں نہیں ہوئے ‘‘
…باقی آئندہ
میں امام مالکؒ کی بات سن کر لرز گیا اور مجھے محسوس ہونے لگا جیسے اس مجلس درس میں یہ میرا آخری دن ہے ۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ۔ جب میں نگاہِ امامؒ میں بے ادب ٹھہرا تھا تو پھر دنیا میں کون میرے ادب پر گواہی دیتا ؟ میں نے بڑی مشکل سے اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سنبھالا اور کانپتی ہوئی آواز میں عرض کیا ’’امامؒ میں دنیا کی اس عظیم ادب گاہ میں ادب ہی سیکھنے کیلئے حاضر ہوا ہوں ، پھر بھی آپ میری بے ادبی کی نشان دہی فرمائیں‘‘۔ میرے اس جواب سے امام مالکؒ کے چہرے پر نظر آنے والی ناگواری کے تاثرات کسی حد تک زائل ہوچکے تھے لیکن ابھی لہجے کی سختی باقی تھی تمہاری بے ادبی یہ ہے کہ تم سماعت حدیث کے آداب سے واقف نہیں ہو ‘‘۔ امام مالکؒ نے فرمایا ۔ ’’جب میں رسول کریم ﷺ کے کلمات سنارہا تھا اور ساری مجلس ساکت و جامد ہوگئی تھی اس وقت تم اپنے ہاتھ پر کسی چیز سے کھیل رہے تھے ‘‘۔
اب میں صورتحال کو سمجھ چکا تھا ۔ بے شک یہ عمل آدابِ مجلس کے خلاف تھا مگر امام کو میری مجبوریوں کی خبر نہیں تھی ۔ میں نے بصد احترام اپنے اس فعل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے پاس کاغذ نہیں تھا اس لئے آپ جو کچھ بیان فرمارہے تھے اسے اپنے ہاتھ پر لکھتا جارہا تھا ‘‘۔ امام مالکؒ کو میرے جواب پر شدید حیرت ہوئی ، فوراً میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچ کر دیکھا اور پھر فرمایا ’’تمہارے ہاتھ پر تو کچھ بھی نہیں لکھا ہے ! ‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں آپ کی بیان کردہ احادیث کو اپنے لعاب دہن سے ایک تنکے کے ذریعے تحریر کررہا تھا ، لعاب کا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس لئے ہاتھ پر عکس باقی نہیں رہا ۔ ویسے بھی مجھے تمام احادیث زبانی یاد ہوچکی ہیں ‘‘۔ میری بات سن کر امام مالکؒ کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا فرمانے لگے ’’سب نہیں ، ایک ہی حدیث سنادو‘‘۔ میں نے فوراً کہا ۔ مجھ سے مالکؒ نے نافع اور ابن عمرؒ کے واسطے سے اس قبر کے مکیں صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم یہ حدیث روایت کی ہے ‘‘ اور پھر امام مالکؒ ہی کی طرح میں نے بھی ہاتھ پھیلاکر روضۂ رسول کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد وہ پچیس احادیث سنادیں جو امامؒ نے آغاز درس سے مجلس کے خاتمے تک بیان کی تھیں‘‘۔
یہ امام شافعی کی بے مثال قوتَ حافظہ کا ایک غیرمعمولی مظاہرہ تھاجس سے امام مالکؒ یہاں تک متاثر ہوئے کہ آپ نے بے اختیار فرمایا ’’فرزند قریش ! خدا تمہاری عمر دراز کرے‘‘۔
دوسرے دن امام شافعیؒ وقت سے پہلے ہی مسجد نبویؐ پہنچ گئے ۔ آپ نے نماز ظہر ادا کی اور مجلس حدیث میں سب سے آگے اس طرح بیٹھے کہ امام مدینہ کے روبرو آپ کی نشست تھی ، درس شروع ہونے سے پہلے امام مالکؒ نے محبت آمیز نظروں سے آپ کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا ’’محمد! تم قرأت کرنے والے کو اپنے ساتھ نہیں لائے ؟ ‘‘
’’امام ! اس دیار میں آپ کے سوا میرا کوئی شناسا نہیں ہے ، میں کس کے سامنے عرض حال کرتا ؟ آپ حکم دیں گے تو خود ہی قرات کروں گا‘‘۔ امام شافعیؒ کو ایک بار پھر اپنی کم مائیگی کااحساس ہوا تھا اس لئے آپ کے لہجے میں سوزشِ دل نمایاں تھی ۔
’’تمہارے پاس کتاب بھی نہیں ہے ، پھر کس طرح قرات کروگے ؟ ‘‘ امام مالکؒ کا اشارہ ’’موطا‘‘ کی طرف تھا ۔
’’جب تک امامؒ کی چشم کرم میری جانب نگراں ہے اس وقت تک مجھے کتاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ‘‘۔
یہ ایک ایسے طالب علم کا دعویٰ تھا جس کی عمر چودہ سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ مجلسِ درس میں ہلچل مچ گئی ، بڑے بڑے پختہ کار لوگ امام شافعیؒ کو تعجب سے دیکھنے لگے خود امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک پر بھی حیرت کے آثار صاف نظر آرہے تھے ۔ ’’مکے سے روانگی کے وقت ’’موطا‘‘ ہی میرا زادِ سفر تھی ، میں نے سوچا تھا کہ جب علم کاشہنشاہ مجھ سے سوال کرے گا کہ شافعی! تو ہماری نذر کو کیا لایا ہے تو میں امام کی بارگاہ میں امامؒ ہی کی روایات پیش کردوں گا ‘‘۔ مجلس کے بام و در ساکت تھے اور تمام اہل مجلس کی نگاہیں فرزند قریش کی چہر ے پر جمی ہوئی تھیں۔ امام شافعیؒ نے امام مدینہ سے اجازت طلب کی اور پھر لوگوں کی سماعتیں ایک نئی آواز سے آشنا ہوئیں۔ امام شافعیؒ پرسوز آواز میں ’’موطا ‘‘ کی قرات کررہے تھے ، سرورِ کونین کے ارشاداتِ گرامی اور ایک جاں نثارِ رسالت کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز ، اہل دل کو نبض کائنات رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔ اس منظر جانفرا کی کیفیت کو خود حضرت امام شافعیؒ نے اپنے سفر نامے میں اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔
’’میں قرأت کے دوران حضرت امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک کی طرف ایک نظر دیکھنے کی کوشش کرتا اور پھر میرے دل پر امامِ مدینہ کی ہیبت چھاجاتی ۔ میں گھبراکر سوچنے لگتا کہ قرأت حتم کردوں ۔ اس خیال کے ساتھ ہی میری آواز بہت آہستہ ہوجاتی ۔ امامِ مالکؒ فوراً آنکھیں کھول دیتے اور میری قرأت پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ۔ فرزند ! اور … فرزند اور ۔ قرأت کا یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا ۔ اہل مجلس کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ کب دن تمام ہو اور کب سورج اُفق غرب میں ڈوب گیا۔ سب لوگ اس وقت چونکے جب مدینے کی فضاؤں میں موذن کی آواز گونجی …