فلسطین ۔ اسرائیل تصادم

   

خدائے برتر تیری زمیں پر زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے
ہر ایک فتح و ظفر کے دامن پہ خونِ انساں کا رنگ کیوں ہے
فلسطین ۔ اسرائیل تصادم
اسرائیل میں ہفتے کی صبح جو یہودیوں کیلئے ایک مقدس دن تھا ایک طرح سے نیا ٹکراؤ اور تصادم شروع ہوگیا ۔ اسرائیل پر فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے ہزاروں راکٹ داغے گئے ہیں۔ اسرائیل نے اس کو ایک حملہ تک محدود قرار نہیں دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک مکمل جنگ کے مترادف ہے ۔ اسرائیل نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس جنگ میں وہ کامیاب رہے گا اور حماس کو اس حملہ کی قیمت چکانی پڑے گی ۔ ویسے بھی اسرائیل اور فلسطین کے مابین ٹکراؤ اور تصادم کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اکثر و بیشتر یہاں اسرائیل کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اسرائیلی عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے غیر انسانی حرکتیں تک کی جاتی ہیں۔ فلسطینی آبادیوں کی ناکہ بندی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ان کی ادویات اور غذائی اجناس کی منتقلی پر بھی روک لگائی جاتی ہے ۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاںعائد کی جاتی ہیں۔ انہیں انتہائی مشکل ترین حالات کا شکار کیا جاتا ہے ۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والا گروپ حماس اس کی مزاحمت کرتا ہے اور پھر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ نہتے اور بے بس فلسطینی عوام پر اسرائیل کی جانب سے فوجی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ جنگی جہازوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ بمباری کی جاتی ہے اور بے تحاشہ تباہی مچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ساری دنیا میں اس طرح کے حملوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ کوئی اسرائیل کو اس کی غیر انسانی اور غاصبانہ جارحیت پر سرزنش کرنے تک کیلئے تیار نہیں ہوتا ۔ اب حماس کی جانب سے پہل کرتے ہوئے اسرائیل پر حملے کئے گئے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل اس کو جنگ قرار دے رہا ہے لیکن یہ در اصل حماس اور فلسطین کے مابین جاری تنازعہ اور ٹکراؤ کی ہی توسیع ہے ۔ بنیادی طور پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کو ختم کرنے تک اس طرح کے حالات پیدا ہونے کے اندیشے لاحق رہیں گے ۔ اسرائیل اپنی جارحیت میں مسلسل اضافہ کتے ہوئے فلسطین کو نشانہ بناتا رہے گا اور حماس کی جانب سے اس کا اپنی صلاحیت اور طاقت کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی جاتی رہے گی ۔ اس صورتحال میں سارے علاقہ کا امن درہم برہم ہوتا رہے گا اور علاقہ کے دوسرے ممالک پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ خطرہ ہمیشہ لٹکتا رہے گا ۔
دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمہ دار ادارہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ کی پرامن اور مستقل یکسوئی کیلئے ایک جامع منصوبہ کے ساتھ کام کریں۔ فریقین کو بات چیت کی ٹیبل پر جمع کیا جائے ۔ کسی کو اس بات چیت کیلئے تیار کرنے دباؤ ڈالنے کی ضرورت آن پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے ۔ دنیا بھر میں امن قائم کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کروانا اقوام متحدہ جیسے ادارہ کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ فلسطین کے عوام کو ان کا حق دلانے اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور حرکتوں کو روکنے میں اقوام متحدہ پوری طرح سے ناکام ہوگیا ہے ۔ یہ بھی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ اسرائیل جیسے غاصب ملک کے ہاتھوں کا کھلونا اور کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے وقفہ وقفہ سے بے تحاشہ طاقت کے استعمال پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کرتا اور اسے اسرائیل کے حق دفاع سے تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اپنے وطن عزیز کی حفاظت اور اپنے حقوق کیلئے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو تسلیم کرنے سے گریز کرتا ہے ۔ یہ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور ڈوغلا پن ہے ۔یہی صورتحال امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی بھی ہے ۔ وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل پر اثر انداز ہونے کی بجائے اس کی ہر غاصبانہ اور ظالمانہ حرکت کی مدافعت کرتے ہیں اور اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔
اب جبکہ فلسطین اور اسرائیل میں ایک بار پھر ٹکراؤ شروع ہوگیا ہے اور یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ اس بار کا ٹکراؤ زیادہ خطرناک اور سنگین ہوگا اور اس میں جانی و مالی نقصانات بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اس سے تباہی کا ایک بڑا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور علاقہ اور کئی ممالک کا امن درہم برہم ہوسکتا ہے ایسے میں حالات کو قابو سے باہر ہونے سے پہلے بہتر بنانے کی جدوجہد ہونی چاہئے ۔ حق کی بنیاد پر سبھی کو ان کے حقوق دلائے جانے چاہئیں اور انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ آج ساری دنیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فلسطین ۔ اسرائیل ٹکراؤ کا کوئی مستقل حل پیش کرے ۔
مدھیہ پردیش میں بی جے پی کا نیا چہرہ ؟
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کیلئے اعلامیہ اور شیڈول کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اس کی تیاری تقریبا مکمل کرلی ہے ۔ تاہم بی جے پی کیلئے سیاسی صورتحال الجھن کا باعث بنتی جا رہی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں خاص طور پر بی جے پی مسائل کا شکارہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے چار معیادوں کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کی تبدیلی کے عملا اقدامات کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی کو یقین نہیں ہے کہ پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی نت نئے اقدامات کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنے کوشاں ہے ۔ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو منظر سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ مخالف حکومت لہر کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔ پارٹی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگھیہ نے یہ اشارے دینے شروع کردئے ہیں کہ وہ بی جے پی کو اقتدار ملنے پر ریاست کے چیف منسٹر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف رکن اسمبلی بننے نہیںآئے ہیں بلکہ ان پر بڑی ذمہ داری عائد ہونے والی ہے ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان حاشیہ پر کردئے گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کے عوام بی جے پی کے اس منصوبہ کو کس حد تک قبول کرتے ہیں۔ کرتے بھی ہیں یا نہیں۔