مرنے کا مجھے غم ہے نہ جینے کی خوشی ہے
یہ زندگی کس موڑ پہ اب آکے رُکی ہے
فلسطین میں ظالم اور درندہ صفت اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ظلم و ستم اور سفاکیت کی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے نماز ادا کرتے ہوئے فلسطینیوں پر بڑے بم برسائے گئے اور خواتین اور بچوں سمیت اس حملے میں100 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی ایک آدھ مرتبہ پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل غزہ پر اور فلسطین کے دوسرے شہروں پر اپنے حملوں کا سلسلہ مسلسل دراز کرتا چلا جا رہا ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی مرحلہ وار انداز میں کی جا رہی ہے ۔ فلسطینیوں کے پاس نہ کھانے کیلئے مناسب غذاء ہے اور نہ زخمیوں کا علاج کرنے کیلئے ادویات دستیاب ہیں۔ موسم کی سختیوں کو جھیلنے کیلئے ان کے پاس چھت بھی نہیں ہے ۔ وہ محض سانس لیتے ہوئے زندہ ہیں اور ضروریات زندگی کی انتہائی معمولی اشیاء کیلئے بھی انہیںتگ و دو کرنی پڑ رہی ہے ۔ یہ ساری کی ساری کارستانی اسرائیل کی ہے اور اس نے غزہ جیسے شہر کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میںفلسطینی شہری اب تک قتل کردئے گئے ہیں۔ ان کی شہادت پر ساری دنیا مردہ جسم کی طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ کسی کا ضمیر کچوکے لگانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ کوئی ان کیلئے آواز بلند کرنا نہیںچاہتا اور اسرائیل کے مظالم اور سفاکیت میںساری دنیا اپنی مجرمانہ خاموشی کے ذریعہ حصہ داری نبھا رہی ہے ۔ ماضی کے کچھ عرصہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل وقفہ وقفہ سے اپنے مظالم کا سلسلہ شروع کرتا رہا ہے ۔ وہ کچھ دن کی سفاکیت اور انسانیت سوز کارروائیوں کے بعد خاموشی اختیار کرلیتا اور جن مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ کارروائی کی گئی ہوتی ان کی تکمیل میں جٹ جاتا ۔ نئی یہودی بستیاں بسائی جاتیں۔ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بیدخل کردیا جاتا ۔ ان کے سر سے سائبان چھین لیا جاتا ۔ یہ روایت رہی ہے ۔ تاہم اس بار ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ایک بڑے منصوبے کے تحت اپنی کارروائیوں کو مسلسل دراز کرتا جا رہا ہے اور دنیا کے بڑے ممالک جو اسرائیل کے حواری بنے ہوئے ہیںوہ اپنی خاموشی کے ذریعہ سفاکیت اور درندگی میںحصہ دا ر بن رہے ہیں۔
جس طرح سے غزہ پر کارروائی کی گئی تھی اور کئی مہینوں تک حملے کرتے ہوئے اس شہر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے وہ بھی ساری دنیا نے دیکھا ہے ۔ اب بھی اسی سلسلہ کو جاری رکھا گیا ہے ۔ آئے دن کسی نہ کسی مقام پر فلسطینیوں کو حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے ۔ سارے علاقہ کو نیست و نابود کردیا گیا ہے اور یہاںمنظم انداز میں یہودی بستیاں بسانے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک اب بھی اسرائیل اور فلسطین دونوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ محض دکھاوا ہے اورا پنی خاموشی کے ذریعہ وہ اسرائیل کے منصوبوں کو پایہ تکمیل کو پہونچانے میںمعاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی کارروائیوں پر دنیا نے جو خاموشی اختیار کرلی ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ساری دنیا انسانیت کے اصولوں کو فراموش کرچکی ہے۔ محض اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر فلسطین کے ہر شہر اور ہر آبادی میں جاری تباہی پر خاموشی اختیار کی جار ہی ہے ۔ مغرب میں کسی کتے کی جان جانے پر اپنی تڑپ کا دکھاوا کرنے والے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں پر خاموشی کو توڑنے بھی تیار نہیں ہے ۔ ان ممالک کیلئے یہ انتہائی ڈوغلے پن اور بھونڈے پن کا ثبوت ہے ۔ یہ ممالک اور خاص طور پر امریکہ و دوسری عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کی طرح جنگی جرائم کی شریک ہیں۔ مسلم ممالک بھی اس معاملے میں مغرب سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ مغرب کے پیچھے ہیں اور اس کی تقلید میںاسرائیل کے مظالم ‘ درندگی اور سفاکیت کے جواز تلاش کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ ہو یا دوسرے عالمی ادارے ہوں سبھی نے ایسا لگتا ہے کہ یہ تہئیہ کرلیا ہے کہ اسرائیل کی مدد کرتے ہوئے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جائے ۔ دنیا کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر اس کے خلاف بغاوت بھی ہوسکتی ہے ۔ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم اپنی انتہاء کو پہونچ رہے ہیں اور اگر دنیا اب بھی اس پر خاموشی برقرار رکھتی ہے تو پھر اسے انسانیت کا دعوی ترک کردینا چاہئے اور یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ بھی اسرائیل کی سفاکیت میں حصہ دار ہے ۔