نفیسہ خان
صبح صادق جو پھٹنے سے پہلے اذاں کی روح پرور پرسکون آواز کے بعد کال بیل کی پہلی گونج یا تو اخبار والے کی ہوتی ہے یا پھر دودھ والے کی حالانکہ اخبار اور دودھ کے پیاکٹ رکھنے کی جگہ ہم نے مقرر کر رکھی ہے، پھر بھی اپنی آمد کی اطلاع دینے پر وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر آپ نے شومئی قسمت سے دروازہ کھول دیا تو آپ کو یہ دونوں مقامی تازہ ترین خبروں کی ترسیل کئے بناء وہ اپنی راہ نہیں لیں گے۔ آج بھی وہی ہوا میں نے اخبار جلد پڑھنے کے اشتیاق میں جوں ہی دروازہ کھولا، دودھ والے رامو نے یہ خبر گوش گزار کی کہ راؤ صاحب کا دل کا شدید دورہ پڑنے کی وجہ سے رات 2 بجے انتقال کر گئے۔ ہم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنا تندرست، ہنس مکھ، کم گو، شریف، آفیسر اور عمر بھی 47، 48 کی رہی ہوگی، ایسے کیسے اچانک انتقال کرگیا۔ کبھی بیمار پڑنے کی بھی اطلاع نہ تھی۔ دودھ والے نے میری طرف غور سے دیکھا اپنی پریشانی پر دو تین بار ہتیلی ماری اور جھلاکر کہا: ’’اماں گارو! می کو ایمی تیلی یدو‘‘۔ (آپ کو کچھ بھی نہیں معلوم اماں)۔ پہلے یہ تو پوچھتے کہ وہ کس کے گھر میں سورگ باش یا نرک باش ہوا ہے‘‘۔ میرے چہرے پر سوالیہ نشان دیکھ کر اس نے کہا: ’’دورا گارو‘‘ اپنے گھر میں کام کرنے والی گوری کے گھر میں مرگئے۔ اتنا کہہ کہ اس کا پیٹ کچھ ہلکا ہوگیا، اس نے اپنی اسکوٹر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا ، میں راؤ صاحب کو بس اتنا جانتی تھی کہ وہ ایک دیانت دار، محنتی، قابل، خوش اخلاق اور مذہبی قسم کے انسان تھے۔ پیشے سے انجینئر تھے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ سورج نکلنے سے پہلے وہ نہا دھوکر کچی دھوتی جسے وہ لوگ مڈی کہتے ہیں، لپیٹے اپنے گلے میں پڑی جینیو (سوتی دھاگے کی ڈوری) کو گھماتے ہوئے پوجا کی تھال اور چاندی کی چھوٹی سی لٹیا میں گنگا جل لئے اپنے فلیٹ کی بالائی منزل کی مشرقی بالکونی میں نمودار نہ ہوتے ہوں گے۔
سوریہ نمسکار کرنا پوجا کرنا اور سورج کو گنگا جل چڑھانا، ان کا روز کا معمول تھا، بیوی کوشلیا دسویں پاس خانہ دار خاتون تھیں۔ دو بیٹیاں تھیں، ڈھائی سال پہلے جن کی شادیوں کے فرض سے سبکدوش ہوچکے تھے۔ اس لئے گھر میں میاں بیوی معقول تنخواہ کے ساتھ بڑی پرسکون زندگی گذار رہے تھے۔ بیوی نہ صرف مذہب بلکہ اعلیٰ ذات کی وجہ سے بہت کٹر قسم کی عورت بھی آندھرا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پروان چڑھی تھیں۔ اس لئے اب بھی چھوا چھوت کو ترک نہ کراسکی تھیں حالانکہ پڑوسیوں سے میل ملاپ تھا۔ پڑوسی خواتین کا گھر میں آنا جانا بھی تھا لیکن کوشلیا صبح ہوتے ہی دروازوں پر لٹکنے والے پردوں کو پرے ہٹادیتیں کہ کہیں کم ذات والوں کے چھونے سے ان کا دھرم بھرشٹ نہ ہوجائے۔ ان مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے استعمال ہونے والے برتن بھی علیحدہ رکھے جاتے تھے۔ وہ خود اپنی ذات والوں کے سوا دوسروں کے گھر کا پانی تک نہ پیتی تھیں، اس لئے جب سکینہ بی اور اس کی بیٹی گوری ان کے پاس کام کرنے لگیں تو مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ سکینہ بی کو تو میں پچھلے 50 سال سے جانتی ہوں۔ پکوان میں ماہر، صاف صفائی، جھاڑے و پونچھا، کھڑے دھونے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا اور کام میں اتنی سرعت و تیزی سے کرتی تھی کہ تین چار گھروں میں بہترین طریقے سے کام بانٹ لیا کرتی تھی اور کسی کو کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دیتی تھی۔ وقت پر کام پر حاضر رہتی تھی، ناغے کرنا، اس کی عادت نہ تھی، اس بیٹے بابو اور بیٹی گوری کی پیدائش پر بمشکل دس دن اس نے چھٹی لی تھی۔ اب گوری 17 سال کی ہے۔ ماں کے ساتھ وہ بھی گھر کو چمکانے میں کمال رکھتی ہے۔ شاید ان کی اسی نفاست پسندی کی وجہ سے کٹر مذہبی خیالات والی کوشلیا نے انہیں کام پر رکھنے کی حامی بھرلی تھی، پھر بھی سکینہ بی ہنس ہنس کر مجھے سنایا کرتی تھی کہ اس کے دھوئے ہوئے برتن کپڑے وغیرہ کو کوشلیا پھر اپنے ہاتھوں سے ایک بار ضرور پانی میں کھنگال کر برتن باورچی خانے میں اور کپڑے پر ڈالتی ہیں اور کپڑے سوکھ جانے کے بعد خود ہی الگنی سے نکال لیتی ہے۔ سکینہ یا گوری کو پھر انہیں چھونے کی اجازت نہ تھی، نہ ہی ان کے باورچی خانے اور پوجا گھر میں قدم رکھنے کی کیونکہ یہ دونوں نہ صرف یہ کہ ان کی ذات کے نہ تھے بلکہ ستم در ستم مسلمان بھی تھے، اس لئے ان دونوں کو کھانا بھی دیا جاتا تو پترولیوں یا موز کے پتوں میں دیا جاتا تھا لیکن بھرپیٹ دیا جاتا تھا۔ کوشلیا کا یہ سلوک برداشت کرنے پر دونوں مجبور تھیں کیونکہ دونوں ہی غریب، مفلسی و ضرورت مند تھیں جن کے بنے چھوٹے سے گھر میں زندگی گذار رہی تھیں کوشلیا حد سے زیادہ بھید بھاؤ کرتیں لیکن بدتمیزی یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہ لیتی تھیں، تنخواہ بھی محنت کے مطابق دیا کرتی تھیں۔ راؤ صاحب چھوت چھات کے قائل نہیں تھے، لیکن بیوی کی خوشنودی کیلئے چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ بیٹوں کی شادیوں سے لے کر عید تہوار پر جی کھول کر کپڑے لتے اور چاندی کے زیورات سے نوازتے تھے، محلے کا ہر فرد اور خصوصاً بچے ان دونوں میاں بیوی سے بہت خوش تھے کیونکہ گھر کے سامنے والے پارک میں روز چہل قدمی کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھیلنا اور بچوں کو چاکلیٹ دینا ان دونوں کا مشغلہ تھا۔ گوری کا نام تھا تو گوری لیکن وہ سانولی رنگت والی بانکی لڑکی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور پیٹھ پر لہرانے والی چوٹی ہر ایک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتی تھی۔ سکینہ بی سے جب بھی میرا سامنا ہوتا تو وہ گوری کی شادی کیلئے مناسب لڑکا دیکھنے کی بات ضرور کرتی تھی۔ میں ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال جاتی کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، اس پر اس اللہ میاں کی گائے سے کون شادی کرے گا نہ تم نے اسے پانچ کلاس سے آگے پڑھنے دیا، نہ قرآن و نماز کی تعلیم کیلئے مسجد بھیجا نہ پکوان، سینا پرونا سکھایا، یہ سب سیکھ لینے دو پھر دیڑھ دو سال میں شادی کردینا، لیکن پچھلے چند ماہ سے میں گوری کی چال ڈھال پہناوے میں فرق محسوس کررہی تھی، گوری کا نہ صرف رنگ روپ نکھرنے لگا تھا بلکہ لباس اُٹھنے بیٹھنے کا طریقہ حد یہ کہ چوٹی گوندھنے کا انداز تک بدل گیا تھا، میں اسے دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ صبح 6 بجے کام پر نکلنے والی اس لڑکی کو اتنا بننے سنورنے کا وقت کیسے مل جاتا ہے لیکن جب بھی گوری کو دیکھتی، اس کی جھکی جھکی نظروں میں اب ایک بے باکی اور نکھری نکھری رنگت بہت سی کہانیاں سنانے لگی تھیں، لیکن اس کے چہرے کی مسکراہٹ مجھے متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔ جھک کر سلام کرنا، کبھی نہ بھولتی مسلمان جو تھی۔ ورنہ سکینہ بی کونسی امت محمدیہ کی پیروکار، پروردہ دودھ کی دُھلی کلمہ گو تھی، کسی گتہ دار کے گھر میں کام کرتے ہوئے اس کی جال میں پھنس گئی تھی کیونکہ اس گھر میں مزیدار کھانے، رہنے کیلئے کمرہ، تن ڈھانکنے کپڑا نصیب تھا۔ شوہر شراب کے نشے میں دُھت رہتا تھا۔ غربت کی ماری ضروریات زندگی کی تکمیل کے عوض تن کے سودے کو برا نہیں سمجھتی رہی۔ گوری کا وجود اسی تعلق کی دین تھا۔ گتہ دار کا کنٹراکٹ ختم ہوا تو یہاں کی سکونت و مقام رہائش بھی بدل گیا۔ ایسے گئے کہ پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ دو بچوں کے ساتھ سکینہ بی ایک بار پھر روٹی روزی کمانے کیلئے آزمائش کے میدان میں اتر پڑی کیونکہ شوہر کو شراب نے پیوند خاک کردیا تھا۔ راؤ صاحب کی بیٹیوں کی اترن پہنتے ہوئے ان کے استعمال شدہ کھلونوں سے کھیلتے ہوئے نہ جانے گوری بچی سے ایک دوشیزہ بن کر راؤ صاحب کی زندگی میں دبے پاؤں داخل ہوگئی۔ راؤ صاحب کا دل آیا بھی تو ایک مسلمان خاندان سے منسوب لڑکی پر آیا گویا ایک بار پھر وقت ماں کی طرح بیٹی کو بھی اسی راہ پر گھسیٹ لایا تھا گویا دولت و عہدے نے غربت و بے سہارا گوری کا استحصال کیا ہو لیکن بدنام تو گوری تھی جس پر الزام ہے کہ الھڑ جوانی و بانکپن کے جال میں راؤ صاحب کو پھانس لیا تھا حالانکہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت پوری کررہے تھے، فرق امیری و غریبی کا تھا، راؤ صاحب کا دل جس گوری پر آگیا تھا، اسی دل نے انہیں اتنا مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنا رتبہ اپنا عہدہ اپنی اعلیٰ ذات سب کچھ فراموش کرکے نصف شب کو گوری کی دیمک زدہ چوکھٹ کو پھلانگنے لگے اور ایک دن اسی دل کی دھڑکن نے اسی چوکھٹ پر ایسی دغا دی کہ دو تین سال سے راز کے بند دروازے خودبخود وا ہونے لگے، پورے گاؤں کو جس بات کی سن گن بھی نہ تھی، راؤ صاحب نے اپنے پیچھے وہ داستان چھوڑی تھی۔ آج جبکہ مسلمان ہر جگہ موردالزام ہے، وہاں راؤ صاحب نے دنیا و سماج میں زندگی گذارنے والی سکینہ بی اور گوری کی محنت کش زندگی پر بڑا سا سوالیہ نشان لگاکر اپنی راکھ کو پوتر گنگا میں بہانے کی تاکید و صیت کرکے رُخصت ہوگئے، گویا گناہ سے مکتی پالی اور سکینہ بی کی طرح گوری کو بھی اپنی غلطیوں، اپنی بے راہ روی اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے پھر ایک بار درندوں کے درمیان پیٹ کی آگ بجھانے کی جستجو کرنے کیلئے چھوڑ گئے، یہ صرف راؤ صاحب اور گوری کے درمیان کے ناجائز رشتے کا نہیں ہے کیونکہ ہر دو مذہب سے تعلق رکھنے والے دوست احباب محلے والے، آفس والے، رشتہ دار اب ایک دوسرے سے آنکھ چرا رہے ہیں، کچھ کے چہروں پر یوں شرمندگی ہے جیسے اس گناہ کے وہ مرتکب ہوئے ہوں، کچھ لوگ اپنے غصے و حقارت کے جذبات کو ظاہر کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ راؤ صاحب و گوری کی نزدیکیاں و قربتیں تو راؤ صاحب کو تو راکھ کر گئیں لیکن جو آگ کوشلیا اور اس کے اہل خاندان کے دلوں میں بھڑک اٹھی ہے، وہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ قصوروار دونوں ہی تھے لیکن رسوائی و بدنامی غربت کے حصے میں آتی ہے، نفرت کی چنگاریاں، شرر و انگارے ایک خاص مذہب کے خلاف بھڑک رہے ہیں۔ کوشلیا کو اپنے سے گِھن آرہی تھی۔ بچپن سے اب تک جس اچھوت کو اپنے برتن اپنے کپڑے شدہ کئے بناء ہاتھ لگانے نہ دیا ۔ اپنی رسوائی اپنے پوجا گھر میں کسی چیز کو بھی چھونے سے باز رکھا تھا، وہی اس کے گھر والے کے دل پر ڈاکہ ڈال چکی تھی، اس کے سہاگ کی حصے دار بن گئی تھی۔ راؤ صاحب کے ساتھ خواب غفلت کے مزے لوٹنے والی کوشلیا کو کسی دن یہ شائبہ تک نہ ہوا کہ ایک گوشت خور وجود اس کی پرسکون شادی شدہ زندگی کی عمارت کے یوں پرخچے اُڑا دے گا۔ ہر مریض صحت یاب ہوکر دواخانے سے ہشاش بشاش گھر لوٹتا ہے یا پھر اس کے بے جان جسم کی گھر واپسی ہوتی ہے لیکن راؤ صاحب کی لغزش پا کی وجہ سے گھر و محلے والوں کی کڑوی کسیلی الزام تراشیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت کوشلیا میں نہ تھی، اس لئے خاندان والوں نے انہیں دواخانے سے سیدھا اپنے آبائی مقام کو لے جانا مناسب سمجھا۔ اس طرح راؤ صاحب کی اپنے گھر واپسی بھی نہ ہوسکی۔ ہر روز بے شمار چوری چکاری، قتل غارت گری، قحبہ گری و آوارگی کے سرزد ہونے والے واقعات میں ہر مذہب و مسلک کے مرد و عورتیں ملوث ہوتے ہیں، کسی ایک مذہب و ملت کو قصوروار یا موردالزام ٹھہرانا مناسب تو نہیں، ہر روز ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس کو بذات خود دکھتے ہوئے یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا لیکن انسان آخر انسان ہے، غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، انسان میں انسانیت جہاں ہوتی ہے، وہاں حیوانیت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، ایسا نہ ہوتا تو راؤ صاحب بالائی منزل پر واقع اپنے فلیٹ کی ہی نہیں بلکہ گرے ہوئے اخلاق کی ساری سیڑھیاں اتر کر گوری کی محبت میں ہیں بلکہ اس کی طلب میں اونچائی سے پستی میں اُتر کر مسلم علاقے کی طرف جانے والی بستی کی راہ پر نہ چل پڑتے، لیکن مذہب کا نام دے کر ہر غلط قدم کو مذہب سے جوڑ دینا ٹھیک نہیں، سزا خاطی کو ملے نہ کہ اس پر کسی ایک مذہب کا لیبل چپکا کر نفرت کی آندھی چلائی جائے، پیٹ کی آگ کے سامنے مذہب اس کے اُصول بھسم ہوجاتے ہیں، آج بھی کئی سرکاری اسکولوں میں مسلمان بچے دوسرے غیرمسلم بچوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کی خاطر گیتا کے اشلوک پڑھتے ہیں اور ماں سرسوتی کی پوجا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں مذہب پر بھوک حاویہے، ویسے ہی مشنری اسکولوں میں زمین پر گھٹنے ٹیک کر خدا کو اللہ کو باپ کا درجہ دینے پر پیٹ بھرتا ہے اور غریب بے بس عورت عزت عفت کی پرواہ کئے بغیر اکثر اوقات عصمت کا سودا کر بیٹھتی ہے ۔سالہا سال سے یہ ہمارے معاشرے کا چلن ہے۔ ہم اور آپ خاموش تماشائی ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر سیاسی لیڈروں کا دخل ہوتا تو راؤ صاحب کو دھوکہ سے بلاکر موت کے گھاٹ اُتارنے کا الزام مسلمان، سکینہ بی اور گوری پر آتا یا پھر گوری پر دست درازی کی مبالغہ آمیز کہانی سناکر مسلمانوں کو بھڑکایا جاتا، اس طرح نفرت فسادات میں بدل جاتی اور نفرت کی آگ کے شعلوں میں سارا محلہ گاؤں پھر شہر آگ کے شعلوں کے سپرد ہوجاتا۔ خدا کا شکر کہ یہاں ایسے شرپسند لیڈر نہیں ہیں لیکن بے حس سماج کے گونگے بہرے افراد کی کیا گاؤں کیا، شہر ہر جگہ بہتات ہے، اس لئے اپنے وجود کی اہمیت کو سمجھتے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، پہلے خود کو سنبھالیں پھر اپنی گلی اپنے محلے اپنے شہر اور ملت کا سر بلند کیجئے کیونکہ
زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا