وُہی لوگ ہدایت پر ہیں اپنے رب (کی توفیق) سے اور وہی دونوں جہاں میں کامیاب ہیں ۔ بے شک جنھوں نے کفر اختیار کرلیا ہے یکساں ہے ، اُن کے لئے چاہے آپ اُنھیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔(سورۃ البقرہ ۵۔۶)
اِن اوصاف سے جو متصف ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ فلاح کسی ادھوری اور جزوی کامیابی کو نہیں کہتے بلکہ فلاح اس مکمل کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کے دامن میں دنیا وآخرت کی ساری سعادتیں اور برکتیں سمٹ آئی ہوں۔ ائمہ لغت نے تصریح کی ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے زیادہ اور کوئی جامع لفظ نہیں جو دنیا وآخرت دونوں کی خیرات وبرکات پر دلات کرتا ہو ۔ (تاج العروس ) اب آپ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَکے مژدہ پر پھر غور کریں۔دعوت حق قبول کرنے والے خوش نصیبوں کے ذکر کے بعد اب ان بد نصیبوں کا حال بیان ہوتا ہے جنہوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر بعض لوگ بلاوجہ جبرو قدر کی بحث چھیڑ دیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ان بےچاروں کا کیا قصور۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو وہ ایمان کیونکر لا سکتے ہیں۔ اور جب خود خدا نے ان کو ایمان لانے سے باز رکھا تو انہیں سزا کیوں دی جائے اور ملامت کیوں کی جائے۔ کاش اتنی بڑی جرات سے پہلے وہ جبر کی حقیقت پر ہی غور کر لیتے۔ …جاری ہے