محمد عامرنظامی
وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
وہ انسان دونوں جہاں میں کامران ہو گیا جس نے قرآن کریم کی آیات میں غوطہ زن ہوکر اس کے اسرار و رموز و معانی و مطالب کو پالیا اور ناکام ہوا وہ شخص جس نے قرآن کریم کی نورانی تعلیمات سے کنارہ کشی کی اور رو گردانی کی ۔ روایتوں میں آتاہے کہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین قرآن کی ایک ایک آیت کو سیکھتے اور اس کو سمجھتے اور اس آیت میں بیان کردہ حکم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیتے تھے ۔ صحابہ اکرام نے قرآن میں تدبر کیا اسکے معانی و مطالب کو سمجھا اسکے مطابق عملی زندگی اختیار کی تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قوم جو باہمی انتشار کا شکار تھی ، جن کے اندر جہالت بے انتہاء بھری ہو ئی تھی ، برہنہ جو خانہ کعبہ کا طواف کرتی تھی اخوت و اتحاد جیسی نعمت عظمی سے محروم تھی مگر اس قوم نے جب قرآن کے بیان کردہ طرز زندگی کو اپنا یا تو ان کا شمار دنیا کی بہترین قوم میں ہو نے لگا۔ وہ قوم دنیا پر ایسا چھائی کہ دنیا کہ کونے کونے میں اسلام کے پرچم کو لہرادیا۔ قیامت تک آنے والی قومیں حیران ہے کہ یہ کیسا درس ہے اور کیسا اُخوت کا سبق ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو اپنی قیمتی چیز تک دینے کیلئے تیار ہے ۔ وہ قوم معرفت الہی میں ایسا غرق ہوئی کہ فرشتے بھی ان پر رشک کرنے لگے۔ وہ قوم جانتی تھی کہ یہ حکمت والی کتاب زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئی ہے ، ہمیں غور کرنا ہوگا کہ قرآن مجید کو پڑھنے کے باوجود ایسی تبدیلی ہم میں کیوں نہیں آتی جو ہمارے اسلاف میں تبدیلی آتی رہی ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ) اس آیت کے تحت امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ منافقین قرآن میں تدبر کرنے سے اعراض کرتے تھے اور اسکے معانی ومطالب میں غور و فکر نہیں کیا کرتے تھے،یہی عادت و خصلت موجودہ دور کے ہم مسلمان میں پائی جارہی ہے ۔ ہم قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ آج قرآن کی دعوت کو سمجھنے سمجھانے اور عام کرنے کی پہلے سے کہیں بڑھکر ضرورت ہے۔ ہمیں قرآن کو عملاً اپنے آپ پر نافذ کرنا ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے (لَا یَمَسُّهٗ ۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَﭤ) اس قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ، یعنی کلام اللہ کی حقیقت کو نا پاک دل نہیں پاسکتا اسلئے دل کو اخلاق ذمیمہ کی نجاست سے پاک اور تعظیم و تکریم کے نور سے آراستہ کرنا چاہئے ،پھر اسکے بعد قرآن کے ذریعہ سے ہم جو بھی مانگیں گے ہم کو ملے گا ۔ صرف بیماریوں سے شفا اور امتحانوں میں کامیابی یہ سب چیزیں چھوٹی ہے، اگر بادشاہت بھی مانگی جائیگی تو وہ بھی ملے گی خدا کی قربت اور معرفت الہی تمام چیزیں ملے گی ۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ فرماتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے تین مراتب ہیں : ۱) پہلا مرتبہ یہ ہیکہ جو کچھ پڑھے اسکے معنی دل میں گزرے۔ ۲) دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ پڑھتے وقت اللہ تعالی کی عظمت و جلال کو دل پر ظاہر کرے۔ ۳) تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ پڑھنے کا دل حق سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ متعلق و مشغول ہو ۔ اللہ تعالی ہم تمام کو قرآن فہمی کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین