قرآن

   

نکلتے ہیں ان سے موتی اور مرجان ، پس (اے انس و جاں) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،اسی کے زیر فرمان ہیں وہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی مانند بلند نظر آتے ہیں۔ (سورۂ رحمٰن ۲۲۔۲۴)
میٹھا اور کھاری پانی جہاں ملتا ہے وہاں سے موتی اور گھونگے نکلتے ہیں جن کو تم زینت وآرائش کے لیے کام میں لاتے ہو۔ مختلف بیماریوں میں یہ دوا کا کام بھی دیتے ہیں۔ اور بھی ان سے طرح طرح کے تم فائدے اٹھاتے ہو۔ لؤ لؤ : بڑا موتی۔ مرجان :گھونگا اور چھوٹے موتی کو بھی مرجان کہتے ہیں۔ جوار : یعنی بڑی کشتیاں۔ المنشئات: وہ کشتیاں جن کے بادبان بلند کردیے جاتے ہیں اعلام :جمع ہے علم کی۔ اس کا معنی ہے پہاڑ ۔ یعنی سمندروں میں پہاڑوں کی مانند بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز تمہیں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھو کس شان سے سطحِ آب پر یہ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ سب اسی خالق حقیقی کے تابع فرمان ہیں۔ اسی خالق حکیم نے پانی میں یہ خوبی پیدا کردی ہے کہ وہ لاکھوں ٹن بوجھ اٹھائے رہتا ہے اسی نے ایسی چیزیں پیدا فرمائی ہیں جن سے کشتیاں اور جہاز بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر ایسی چیزیں پیدا نہ فرماتا جو پانی پر تیر سکتی ہیں یا پانی میں یہ صلاحیت نہ ہوتی کہ اس میں آسانی سے جہاز رانی ہو سکے، بلکہ دلدل کی طرح ہر چیز اس میں دھنستی چلی جاتی تو کیا دور دراز ملکوں میں جن کے درمیان بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل جیسے سمندر حائل ہیں تمہاری آمدورفت ممکن ہوسکتی یا تم ایک ملک کی مصنوعات اور خردنی اجناس دوسرے ممالک میں لے جاسکتے؟ کیا یہ سب اس کی رحمت کے کرشمے نہیں۔ اے جن وانس! چشم ہوش کھولو۔ اپنے خالق ومالک کو پہچانو اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ انکار اور ناشکری کی راہ پر کب تک چلتے رہو گے۔