قرآن

   

اَلرَّحْـمٰنُ … رحمٰن نے ۔(سورۂ رحمٰن ۔۱) 
اس مبارک سورت کا پہلا کلمہ الرحمٰن ہے۔ یہی اس کا نام ہے۔ نیز اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی شان رحمانیت کی تجلّیاں ہر سو جلوہ طراز ہیں۔ اس لیے اس سورت کے مضامین سے یہ نام بڑی مناسبت رکھتا ہے ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہٗ سے اس کا نام ’’عروس القرآن‘‘ بھی مروی ہے۔اس میں تین رکوع، چھہتر یا اٹھہتر آیتیں، تین سو اکیاون کلمے، ایک ہزار چھ سو چھتیس حروف ہیں۔اگرچہ چند حضرات نے اسے مدنی سورتوں میں شمار کیا ہے، لیکن اکثر علمائے تفسیر کی یہی رائے ہے کہ اس کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا۔ علامہ قرطبی اس سورت کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:’’حضرت عروہ ابن زبیر سے مروی ہے کہ ایک روز صحابہ کہنے لگے کہ قریش نے آج تک قرآن کو سنا نہیں، بغیر سنے اس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ہمّت کر کے اور بلند آواز سے ان کو قرآن حکیم سنائے تو کتنا اچھا ہو۔ حضرت ابن مسعودؓ نے کہا یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔ صحابہ نے کہا تمہارا سنانا مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں کمزور اور ضعیف سمجھ کر زدو کوب کریں۔ کسی ایسے آدمی کو یہ فریضہ انجام دینا چاہیے جس کا قبیلہ زور آور ہو تاکہ اس کے خوف سے کوئی کافر اس پر دست درازی نہ کرسکے۔ لیکن ابن مسعودؓ نے ان کی ایک نہ سنی۔ اٹھے، مقام ابراہیم کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی سریلی آواز سے بلند آواز میں سورۃ الرحمٰن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش جو اپنی اپنی مجلسیں جمائے بیٹھے تھے، پہلے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ بعد میں جب انہیں پتہ چلا کہ یہ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے قریب آکر مارنا شروع کیا۔ بڑی بیدردی سے انہیں پیٹا، یہاں تک کہ ان کا چہرہ زخمی ہوگیا‘‘۔