قرآن

   

اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ، مگر سراپا رحمت بنا کر سارے جہانوں کے لیے ۔ ( سورۃ الانبیاء : ۱۰۷)
گزشتہ سے پیوستہ … حضور کریم (ﷺ) نے اپنی شان رحمت سے نقاب سرکاتے ہوئے فرمایا میں وہ رحمت ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بطور تحفہ عطا فرمائی۔ایک مرتبہ کفار کے لئے جب بددعا کرنے کی التجا کی گئی تو حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے عذاب بنا کر نہیں بھیجا بلکہ سراپا رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: حضور کریم (ﷺ) کا تمام کائنات کے لیے رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ عالم امکان کی ہر چیز کو حسب استعداد جو فیض الٰہی ملتا ہے وہ حضور کے واسطہ سے ہی ملتا ہے اسی لیے حضور (ﷺ) کا نور تمام مخلوقات سے پہلے پیدا فرمایا گیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اے جابر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا، اور دوسری حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ دینے والا ہے اور میں (اس کی رحمت کے خزانوں کو) بانٹنے والا ہوں اور صوفیائے کرام قدست اسرارھم نے اس ضمن میں جو اسرار و معارف بیان کیے ہیں۔ وہ اس سے بلند ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔حضرت علامہ اقبال نے حامل لواء الحمد اور صاحب مقام محمود کی مدح سرائی میں جب یوں گل فشانی کی ہوگی تو کیا عجیب سماں ہوگا؎
وہ دانائے سبل ختم الرسل، مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سیناء
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی طہٰ