قربانی اسلام کا درس عظیم

   

حافظ سید شاہ مدثر حسینی
قربانی ایک مہتم بالشان عبادت ہے ، حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی امت تک چلی آرہی ہے اور تا ابد جا ری رہے گی، ہر مذہب و ملت میں اس عظیم عبادت پر عمل رہا ہے، چنانچہ رب کائنات کا ارشاد ہے:’’ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘: اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے (سورۃ الکوثر )
مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں اللہ تعالی نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو قربانی کا حکم دیا ہجرت کے بعد د س سال تک حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور ہرسال قربانی فرماتے رہے ۔قربانی ایک اہم مالی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے اور سیدنا حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کی سنت ہے۔ قربانی کی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ جن جانورں کے بدن پر اون ہے تو اس اون کا کیا حکم ہے۔ کیا اس پر بھی کچھ ملے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قربانی بہت بڑا عمل ہے اور قربانی کے ایام میں اللہ تعالی کو قربانی کرنے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے، قربانی کرتے وقت خون کا جو پہلا قطرہ زمین پرگرتا ہے تو گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے پاس مقبول ہوجاتا ہے۔قربانی واجب ہوتے ہوئے اور مالی وسعت ہوتے ہوئے قربانی کا نہ کرنا بہت بڑی بد نصیبی اور نیکی سے محرومی کا اور جان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے۔
جس شخص نے قربانی واجب ہوتے ہوئے قربانی نہ کی تو اس سے بڑھ کر بد نصیب کون ہوگا کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے عید گاہ میں آنے سے منع فرما دیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں قربانی کرنے کی اسطاعت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو ایسا آدمی ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
(سنن ابن ماجہ)